Fatwa No. # 57 Jild No # 01
مسئلہ نمبر ۵۷ مکرمی معظمی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ:
خادم عالی جناب سیدنا و مولیٰنا و مرشدنا الحاج شاہ سید مصباح الحسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مرید ہے۔ خادم کے پیر و مرشد کی شان میں مندرجہ ذیل ان کا نعتیہ شعر میں کہ ایک شخص نے گستاخی میں یہ کلمات ادا کئے ‘‘یہ کھلم کھلا شرک ہے’’ اگر بغیر توبہ کئے وصال ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ بہتر جانے کہ بخشش ہو کہ نہ ہو۔ اور خادم سے تجدید بیعت حاصل کرنے کے لئے تو کہا۔ اور مزید دوسرے موقع پر یہ بھی کہا کہ اس شعر کی بنا پر وہ انہیں سید زادہ نہیں مانتا حالانکہ یہ شخص رسالہ ملفوظ مصابیح القلوب پھپھوند شریف کا مہینوں پہلے ہی مطالبہ بھی کر چکا تھا۔ جس میں میرے پیر اور دادا پیر مرشد حضرت سید نا عبد الصمد مودودی چشتی نظامی فخری سلیمانی حافظی ابدالی قدس سرہ رحمۃ اللہ علیہ کے کل حالات مع مادری پدری اور طریقت کے شجرے مندرجہ ہیں۔
شعر نمبر (۱)
جان و ایمان و اصل ایمانم
سجدہ سوئے تو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
خادم نے حضرت مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ کا مندرجہ ذیل شعر جو ماہنامہ ‘‘نوری کرن’’ بریلی شریف سے کرن نمبر ۱۲۱ نومبر ۱۹۹۹ء میں مع ترجمہ عالی جناب اقبال احمد نوری مدظلہ کے شائع ہوا اور اب جلد نمبر ۴ استقامت میں کانپور سے شائع ہوا ہے پیش کیا۔
شعر نمبر (۲)
زہے جمال تو قبلہ جاں
حریم کوئے تو کعبہ دل
فان سجدنا اليك نسجد
وان سعينا اليك نسعى
ترجمہ: یا حبیب اللہ آپ کا جمال انور قبلہ جان ہے آپ کا کوئے حرم کعبہ دل ہے۔ ہم اگر آقا سجدہ کریں گے تو آپ کی طرف اور اگر سعی کریں گے تو آپ کی طرف۔
اس شخص نے شعر نمبر (۲) کے ترجمہ کو بھی غلط بتلایا اور کہا لفظ ‘‘ کریں گے ’’کا استعمال دونوں جگہ اوپر والے ترجمہ میں غلط ہے بلکہ‘‘کرتے’’ ترجمہ ہونا چاہئے ۔ یہ صاحب پیش امام بھی ہیں۔ مرید بھی ہیں اور اپنے کوسنی حنفی بھی کہتے ہیں۔ کیا خادم مندرجہ بالا حالات میں اس شخص کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ اور کیا شعروں میں شرعی نقص ہے؟ کیا مندرجہ بالا کلمات، اولیاء اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی ہیں یا نہیں؟ - شعر نمبر (۲) کا ترجمہ جو نوری کرن اور استقامت نے شائع کیا وہ صحیح و درست ہے یا جو اعتراض اس شخص نے کیا ہے وہ ٹھیک ہے؟ خادم کو تجدید بیعت کرنی چاہئے یا یہ شخص تجدید ایمان و بیعت و نکاح کرے؟ جبکہ شان اولیاء اللہ تعالی قرآن عظیم اور احادیث نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
(۱)پارہ نمبر (۱۱) يعتذرون ، رکوع نمبر (۱۱) سورة يونس ﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءِ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾
(۲)مشکوٰۃ شریف ، ص ۱۹۷، اور صحیح البخاری شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میرے ولی سے عداوت کی اس شخص کو میری طرف سے اعلان جنگ ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
استدعا ہے کہ جواب سے مطلع فرماویں اور جملہ مسائل کو اپنے رسالہ اعلیٰ حضرت میں شائع فرما کر مشکور فرمائیں ۔ عین نوازش ہوگی ۔ فقط ۔ والسلام علیکم ۔
المستفتی: محمد ضمیر مصباحی، اے ۔ ایس ۔ آئی (پولیس) ۴۲/۵، ۱۵/ربٹالین، پی۔اے۔سی۔تاج گنج، آگرہ، یوپی ۔
الجوابـ
شعر مذکور میں سجدۂ حقیقی ہرگز مراد نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔ غیر خدا کے لئے سجدہ بہ نیت عبادت کفر و شرک ہے اور بہ نیت تعظیم ہماری شرع میں حرام ہے۔ اس کا مرتکب کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا مگر شرک نہ ہوگا۔ شخص مذکور نے اپنی جہالت سے یا تو سجدہ کو سجدۂ عبادت سمجھ لیا اور مولانا علیہ الرحمہ پرحکم شرک جڑ دیا یا سجدۂ تعظیمی ہی کو بہ تقلید و ہا بیہ شرک جانا اور سجدہ سے مجرد تعظیم مراد ہونا اس کے خیال میں نہ آیا حالانکہ عرف میں سجدہ سے کبھی مجرد تعظیم بھی مراد ہوتی ہے۔ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی تفسیر عزیزی میں ایک گروہ اولیا کے متعلق فرماتے ہیں:
مسجود خلائق گشته اند ’’ ملخصاً‘‘
[تفسیر عزیزی پارۂ عم سورۂ الم نشرح ص ۳۲۲ مطبع مسلم بکڈ پولال کنواں دہلی]
اب کیا شاہ صاحب کو بھی مشرک کہا جائے گا؟ نہیں اور یہی وجہ ہر شخص موافق و مخالف بیان کرے گا کہ یہاں مجازی معنیٰ مراد ہیں۔ اور جب یہاں شاہ صاحب کی عبارت میں مجازی معنیٰ مراد ہوئے تو اس شعر میں حقیقت مراد ہونے کا علم کیسے ہو گیا مگر ہے یہ کہ وہابیہ بڑی ہٹ دھرم قوم ہے۔ جو بات دوسروں کے لئے شرک وہی بات اپنوں کے لئے عین ایمان ہو جاتی ہے۔ پھر بالفرض اگر حقیقی معنیٰ ہی مراد تو محض اتنی بات پر حکم شرک کیسے دے دیا۔
ہنوز سجدہ حقیقی میں دو قسموں کا احتمال ہے، تعظیمی اور تعبدی۔ پہلا حرام ہے، دوسرا شرک ہے۔ اسے پھلانگ کر یہ دوسرا ہی کیوں پکڑا۔ مگر یہ کہ وہابیہ کو شرک گری کی ہوس ہے۔ کہاں ان مقہورین کے یہ بڑے بول اور کہاں ہمارے علمائے اہل سنت کا یہ بلند پایہ احتیاط کہ فرماتے ہیں:
’’لا يفتي بكفر مسلم امكن حمل كلامه او فعله علىٰ محمل حسن او كان في كفره خلاف‘‘
[الدر المختار، ج ۶، ص ٣٦٧ ، باب المرتد، مطبع دار الكتب العلمية، بيروت]
یعنی مسلمان کے قول و فعل کو معمل حسن پر رکھنا جب تک ممکن ہو یا اس کے کفر میں خلاف ہو اس کے کفر کا فتوی نہ دیا جائے گا۔
پھر شرک کا وہ جرنیلی حکم اور اس پر یہ کہنا کہ‘‘ اگر بغیر توبہ کے وصال ہوا تو اللہ تعالیٰ بہتر جانے کہ بخشش ہو یا نہ ہو ’’طرفۂ عجب ہے۔ گویا کھلا مشرک جس کا خاتمہ شرک پر ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے، چاہے بخشے چاہے عذاب دے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿َإِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ ﴾
[سورهٔ نساء آیت – ۴۸]
اللہ شرک کو معاف نہ فرمائے گا۔
یہ کہنا آیت کریمہ اور عقیدۂ ضرور یہ دینیہ کا انکار ہے جو کفر ہے اور اس قول سے اس پر تو بہ و تجدید ایمان لازم ہے اور بیوی رکھتا ہو تو تجدید نکاح بھی لازم ہے اور تجدید بیعت بھی اس کو چاہئے ۔ ترجمہ دونوں طرح درست ہے اور شعر دونوں ترجموں پر صحیح و بے غبار ہے کہ ہم اگر سجدہ کریں گے یا ہم اگر سجدہ کرتے شرطیہ ہے جو مستلزم وقوع نہیں ۔
والله تعالى أعلمکتبــــــه:
فقیر محمد اختر رضا خان از هری قادری غفر له
[فتاویٰ تاج الشریعہ ، ج: ۱، ص: ۲۲۲، مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی]
نوٹـ: فائل ڈاؤنلوڈ ہونے کے بعد بعض اوقات براہِ راست نہیں کھلتی ہے ۔ اگر ایسا ہو توبراہِ کرم اپنے موبائل یا کمپیوٹر کے "Downloads" فولڈر میں جا کر فائل کو کھولیں۔