کیا مردہ بچہ قبرستان میں دفن کرنا منع ہے؟

Fatwa No. # 4       Jild No # 03

مسئلہ نمبر ۲۳ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسائل ذیل میں کہ:

زید کا قول ہے کہ جب بچہ مردہ پیدا ہو تو اسے قبرستان میں دفن کرنا منع ہے۔ اس پر بکر نے کہا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ مسنون طریقہ پر غسل اور کفن نہیں دیں گے اور نہ نماز جنازہ پڑھیں گے۔ یونہی بچے کو قبرستان میں دفن کریں گے۔ فقط

المستفتی: محمد خلیل الرحمن ساکن سسونا پوسٹ گینی ضلع بریلی شریف


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجوابـ زید کا قول محض غلط ہے بکر کا قول صحیح ہے بچہ کا اکثر حصہ جبکہ باہر نکل آئے اور اس وقت اس میں زندگی کے آثار نہ ہوں تو حکم یہی ہے۔

مراقی الفلاح میں ہے:
(وان لم يستهل غسل ) وان لم يتم خلقه (فى المختار ) لانه نفس من وجه (وادرج في خرقه ) وسمی (و دفن ولم يصل عليه)
[مراقی الفلاح، ص ۲۱۷-۲۱۸ ، فصل السلطان احق بصلوته ثم نائبه المكتبة الاسعدى]

طحاوی میں ہے:
قوله وان لم يتم خلقه فيغسل وان لم يراع فيه السنة الخ
[طحطاوي على مراقی الفلاح ، ص ۵۹۸ ، فصل السلطان احق بصلوة ثم نائبه ، دار الكتب العلميه بيروت]

اسی میں ہے:
قوله وان لم يستهل مثله ما اذا استهل فمات قبل خروج اكثره اما الاستهلال في البطن فغير معتبر بالاولى -
[طحطاوي على مراقی الفلاح ، ص ۵۹۸ ، فصل السلطان احق بصلوة ثم نائبه، دار الكتب العلميه بيروت،]

زید پر تو به لازم کہ غلط مسئلہ بتایا۔

والله تعالى أعلم
کتبــــــه:

فقیر محمد اختر رضا خان از هری قادری غفر له

[فتاویٰ تاج الشریعہ ، ج: ۳، ص: ۹، مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی]

نوٹـ: فائل ڈاؤنلوڈ ہونے کے بعد بعض اوقات براہِ راست نہیں کھلتی ہے ۔ اگر ایسا ہو توبراہِ کرم اپنے موبائل یا کمپیوٹر کے "Downloads" فولڈر میں جا کر فائل کو کھولیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں