‘‘قیوم’’ اسمائے خاصہ باری تعالیٰ سے ہے

Fatwa No. # 58-59       Jild No # 01

مسئلہ نمبر ۵۸ تا ۵۹ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ:

(۱)زید رحیم، کریم ، عطوف، قیوم، رؤف، وغیرہ صفات کا اطلاق اپنے استاذ و پیر کی شان میں کرتا ہے اور دلیل میں پیش کرتا ہے کہ قیومیت فردانیت وغیرہ ولایت میں سے ہیں۔ آیا از روئے شرع غیر خدا کے لئے صفات مذکورہ کا اطلاق جائز ہے یا نہیں؟ جو جواب عنایت فرمائیں، مدلل فرمائیں۔

(۲)اگر زید عالم نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں سجدۂ تعظیمی کے جواز کا فتویٰ دیا اور دلیل میں حدیث پاک و دیگر علماء ومحدثین کے اقوال بھی نقل کئے اور عدم جواز پر جو دلیلیں ملیں ان کی تاویلات بھی کیں اور تاویلات میں بھی نیت بخیر رہی ہو تو کیا ایسے عالم سے حسن عقیدت رکھنا، ان کی تعریف و توصیف کرنا قبر پر فاتحہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

اگر بالفرض زید نے بکر عالم کی شان میں کچھ لکھا تو اس کو تلف کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ واضحاور رہے کہ جواز کا قول محبوب الہی نے کیا ہے۔ اگر چہ جمہور علما وفقہاء اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ حرمت کا فتویٰ بھی دیا جاتا ہے۔ مگر اس زید عالم مذکور سے جمہور کے خلاف جواز کا قول دیدہ و دانستہ صادر نہ ہوا ہوتو کیا ایسی صورت میں بھی عند الشرع فاسق فاجر ٹھہرے گا یا نہیں؟ جو بھی جواب دیں۔ دلیل کے ساتھ ارقام فرمائیں۔

المستفتی: نثار احمد دارالعلوم قادریہ، کافور گلی ، ہوڑہ، بنگال


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجوابـ حاضر و ناظر ہونا جسم و خاصۂ جسم ہے اور اللہ تعالیٰ خواص جسم سے منزہ ہے اسی معنی کے اعتبار سے وہ کہیں کسی مکان میں حاضر نہیں ہے اور نہقیوم اسماے خاصہ باری تعالیٰ سے ہے۔ فقہائے کرام نے غیر اللہ پر اس کے اطلاق سے ممانعت فرمائی بلکہ اطلاق کرنے والے پر حکم کفر فرمایا۔ شرح فقہ اکبر و مجمع الانھر میں ہے:
’’او أطلق علىٰ المخلوق من الاسماء المختصة بالخالق، نحو القدوس والقيوم والرحمٰن وغيرها يكفر‘‘
[مجمع الانهر، ج ۲، ص ۳۲۹ ، كتاب السير والجهاد ، باب الفاظ الكفر انواع، مطبع داراحياء التراث العربي بيروت]

لہذا اسمائے خاصہ کے اطلاق سے احتیاط لازم ہے۔ اور بقیہ اسماء کا اطلاق جائز ہے۔ کہ وہ اسمائے خاصہ نہیں۔ در مختار میں ہے:
’’جاز التسمية بعلى و رشيد من الاسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالىٰ‘‘
[الدر المختار، ج ۹، ص ۵۹۸ کتاب الحظر والاباحة، فصل في البيع، فرع يكره اعطاء سائل المسجد ، دار الكتب العلمية، بيروت]

رد المحتار میں ہے:
’’عن السراجية : التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالىٰ كالعلى والكبير والرشيد والبديع جائزة الخ‘‘
[رد المحتار، ج ۹، ص ٥٩٨ كتاب الحظر والاباحة، فصل في البيع فرع يكره اعطاء سائل المسجد دار الكتب العلمية، بيروت]

(۲)زید عالم نے اگر بے وجہ شرعی مخالفت جمہور کا فیصلہ نہ کیا بلکہ وہ اس میں متبأول ہے تو اس کی تفسیق جائز نہیں۔ بلکہ حسن ظن لازم ہے اور اس کے علم و فضل کی تعریف بے مبالغہ اور قبر پر فاتحہ خوانی جائز ہے اور مرغوب ہے مگر اس مسئلہ میں اسے غلطی پر جانے اور جمہور علماء کا اتباع کرے۔ در مختار میں ہے:
’’علينا اتباع ما رجحوه ما صححوه كما لو افتو في حياتهم‘‘
[الدر المختار ج ۱ ص ۱۸۰ ، المقدمة، مطبع دار الكتب العلمية بيروت]

والله تعالى أعلم
کتبــــــه:

فقیر محمد اختر رضا خان از هری قادری غفر له

[فتاویٰ تاج الشریعہ ، ج: ۱، ص: ۲۲۵، مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی]

نوٹـ: فائل ڈاؤنلوڈ ہونے کے بعد بعض اوقات براہِ راست نہیں کھلتی ہے ۔ اگر ایسا ہو توبراہِ کرم اپنے موبائل یا کمپیوٹر کے "Downloads" فولڈر میں جا کر فائل کو کھولیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں