بیعت کے اقسام اور اس کے شرائط علم عاشقی اور تلبیس ابلیس کیا ہے؟

Fatwa No. # 322-324       Jild No # 02

مسئلہ نمبر ۳۲۲ تا ۳۲۴ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و شرع متین اس کے بارے میں کہ:

(1) ایک شاعر نے ایک شعر میں کہا کہ علم عاشقی حاصل کرنا جائز ہے اور تلیس ابلیس علم نا جائز وحرام ہے۔

(۲) علم عاشقی کون سا علم ہے اور تلبیس ابلیس کون سا علم ہے؟ کیا فسق کا اطلاق کفر پر ہوتا ہے؟

(۳) جماعت اسلامی کہتے ہیں کہ بغیر طریقت کے نجات ہو جائے گی۔ اس بارے میں علمائے اہل سنت کی کیا رائے ہے؟ ان سے تعلق رکھنا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے کہ نہیں؟

المستفتی: محمد یونس بھاگلپوری ایک رات کی مسجد عید گاہ مراد آباد یو پی ١٧ دسمبر ۱۹۷۷ء بروز سنیچر


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجوابـ (1) وہ علم دین ہے اور دین اللہ و رسول کی اطاعت کا نام ہے۔ قال الله تعالى:
﴿ وَمَن يُطِعُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِيمًا﴾
[سورہ احزاب آیت ۷۱]
یعنی اور جو اللہ و اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔
[ کنز الایمان ] [ کنز الایمان ]

اس کو فرمایا :
﴿ إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللهِ الإِسْلامُ ﴾
[ سوره آل عمران آیت ۱۹]
یعنی بیشک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔
[ کنز الایمان ]

اور اطاعت کو محبت لازم اس لئے قرآن وحدیث میں صراحہ محبت کا حکم فرمایا اور بے علم اطاعت نا منصور، اسی لئے بہ قدر ضرورت علم دین سیکھنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے۔ قال النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :
"طلب العلم فريضة على كل مسلم (ومسلمة)"
[مشكورة المصابيح ، كتاب العلم الفصل الثاني ، ص ٣٤ مطبع مجلس برکات مبارکپور / سنن ابن ماجة المقدمة باب فضل العلماء والحث على طلب العلم ، ص ۲۰، مطبع مكتبه تهانوی دیوبند کنز العمال حدیث نمبر ٤٨ - ٢٨٦٤٧ ، كتاب العلم، الباب الأول في الترغيب فيه، مطبع دار الكتب العلمية بيروت / المقاصد الحسنة للسخاوى حرف الطاء المهملة، ص ۳۲۰ ، حدیث نمبر ٦٥٨ مطبع بركات رضا پور بندر گجرات]

اسی کو شاعر نے علم عاشقی کہا اور اس کے ماسوا کو تلبیس ابلیس کہا اور بلاشبہ وہ علم جو علم دین کے مبادی سے نہ ہو اور شریعت اس سے منع فرماتی ہو جیسے جادو، کہانت ، نجوم وہ تلبیس ابلیس ہے اور اس کا سیکھنا حرام ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

(۲) جہاں فسق کا اطلاق کفر پر ہے وہاں فسق سے مراد کفر ہے یعنی جو بے ایمان مرے وہ یقیناً کافر مردار ہے اس کی نماز جنازہ نا جائز ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

(۳) ہم یہاں سیدنا اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے ایک فتوی کا اقتباس تحریر کرتے ہیں جس سے حکم مسئلہ ظاہر ہوگا اور کثیر فائدے حاصل ہوں گے۔ فرماتے ہیں: مرشد کی دو قسم ہے:

اول عام تو کلام اللہ و کلام رسول و کلام ائمہ شریعت و طریقت و کلام علمائے دین اہل رشد و ہدایت ہے اسی سلسلہ صحیحہ پر کہ عوام کا ہادی کلام علما، علما کا رہنما کلام ائمہ، ائمہ کا مرشد کلام رسول ، رسول کا پیشوا کلام الله جل وعلا صلی للہ تعالی علیہ وسلم فلاح ظاہر ہو، خواہ فلاح باطن اسے اس مرشد سے چارہ نہیں ۔ جو اس سے جدا ہے بلا شبہ کافر ہے یا گمراہ ۔

دوم خاص کہ بندہ کسی عالم کی صحیح العقیدہ صحیح الاعمال جامع شرائط بیعت کے ہاتھ میں ہاتھ دے یہ مرشد خاص جسے پیر و شیخ کہتے ہیں پھر دو قسم ہے۔

اول شیخ اتصال یعنی جس کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انسان کا سلسلہ حضور پرنورسید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک متصل ہو جائے اس کے لئے چار شرطیں ہیں:

(1) شیخ کا سلسلہ باتصال صحیح حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تک پہنچا ہو، بیچ میں منقطع نہ ہو کہ منقطع کے ذریعہ سے اتصال ناممکن ، بعض لوگ بلا اجازت بیعت محض بزعم وراثت اپنے باپ دادا کے سجادے پر بیٹھ جاتے ہیں یا بیعت تو کی تھی مگر خلافت نہ ملی تھی بلا اذن ، مرید کرنا شروع کر دیتے ہیں یا سلسلہ ہی وہ ہو کہ قطع کر دیا گیا اس میں فیض نہ رکھا گیا لوگ براہ ہوس اس میں اذن و خلافت دیتے چلے آتے ہیں یا سلسلہ فی نفسہ صحیح تھا مگر بیچ میں کوئی ایسا شخص واقع ہوا جو بوجہ انتقائے بعض شرائط قابل بیعت نہ تھا اس سے جو شاخ چلی وہ بیچ میں سے منقطع ہے ان صورتوں میں اس بیعت سے ہرگز اتصال حاصل نہ ہو گا بیل سے دودھ یا بانجھ سے بچہ مانگنے کے برابر ہے۔

(۲) شیخ سنی صحیح العقیدہ ہو، بد مذہب گمراہ کا سلسلہ الشیطان تک پہنچے گا نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تک ، آج کل بہت کھلے ہوئے بد دینوں بلکہ بے دینوں حتی کہ وہابیہ نے کہ سرے سے منکر و دشمن اولیا ہیں مکاری کے لئے پیری مریدی کا جال پھیلا رکھا ہے ہو شیار خبر دار احتیاط احتیاط ۔

شعر

اے بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے نباید داد دست

(۳) عالم ہو۔ اقول علم فقہ اس کی اپنی ضرورت کے قابل کافی ، اور لازم کہ عقائد اہل سنت سے پورا واقف ، کفر و اسلام و ضلالت و ہدایت کے فرق کا خوب عارف ہو ورنہ آج بد مذہب نہیں کل ہو جائے گا۔ صدہا کلمات و حرکات ہیں جن سے کفر لازم آتا ہے اور جاہل براہ جہالت ان میں پڑ جاتے ہیں اول تو خبر ہی نہیں ہوتی کہ ان کے قول یا فعل سے کفر صادر ہوا اور بے اطلاع توبہ ناممکن تو مبتلا کے مبتلا ہی رہے اور اگر کوئی خبر دے تو ایک سلیم الطبع جاہل ڈر بھی جائے ، توبہ بھی کرلے مگر وہ جو سجادہ مشیخت پر ہادی و مرشد بنے بیٹھے ہیں ان کی عظمت کہ ان کے قلوب میں ہے کب قبول کرنے دے۔ اور اگر ایسے ہی حق پرست ہوئے، اور مانا تو کتنا اتنا کہ آپ تو بہ کر لیں گے قول و فعل کفر سے جو بیعت فسخ ہوئی اب کسی کے ہاتھ پر بیعت کریں اور شجرہ اس جدید شیخ کے نام سے دیں، یہ ان کا نفس کیوں کر گوارا کرے نہ اس پر راضی ہوں گے کہ آج سے سلسلہ بند کریں مرید کرنا چھوڑ دیں وہی سلسلہ کہ ٹوٹ چکا جاری رکھیں گے لہذا عالم عقائد ہونا لازم۔

(۴) فاسق معلن نہ ہو ، اقول اس شرط پر حصول اتصال کا توقف نہیں کہ مجرد فسق باعث فسخ نہیں مگر پیر کی تعظیم لازم ہے اور فاسق کی تو ہین واجب، دونوں کا اجتماع باطل تبیین الحقائق امام زیلعی وغیرہ میں ہے:
"في تقديمه للامامة تعظيمة وقد وجب عليهم اهانته شرعا"
[ تبيين الحقائق ، ج ١ ، ص ٣٤٥ ، كتاب الصلوة، باب الامامة في الصلوة، دار الكتب العلمية بيروت ]

دوم شیخ ایصال کہ شرائط مذکورہ کے ساتھ مفاسد نفس و مکائد شیطان ومصائد ہوا، سے آگاہ ہو دوسرے کی تربیت جانتا اور اپنے متوسل پر شفقت تامہ رکھتا ہو کہ اس کے عیوب پر مطلع ہو کر اسے مطلع کرے ان کا علاج بتائے جو مشکلات اس راہ میں پیش آئیں حل فرمائے نہ محض سالک ہو نہ نرا مجذوب ۔ عوارف شریف میں فرمایا کہ یہ دونوں قابل پیری نہیں ۔ بلکہ مجذوب سالک ہو یا سالک مجذوب اور اول اولی ہے۔

پھر بیعت کی بھی دو قسم ہے۔

(۱) بیعت برکت، کہ صرف تبرک کے لئے داخل سلسلہ ہو جانا ، آج کل عام بیعتیں یہی ہیں وہ بھی نیک نیتوں کی ورنہ بہتوں کی بیعت دنیاوی اغراض فاسدہ کے لئے ہوتی ہے، وہ خارج از بحث ہیں، اس بیعت کے لئے شیخ اتصال کے شرائط اربع کا جامع ہو، بس ہے۔ اور بیکار یہ بھی نہیں مفید اور بہت مفید اور دنیا و آخرت میں بکار آمد ہے محبوبان خدا کے غلاموں کے دفتر میں نام لکھا جانا ، ان سے سلسلہ متصل ہو جانا فی نفسہ سعادت ہے۔

اولا ان کے خاص غلاموں ، سالکان راہ سے اس امر میں مشابہت اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو جس قوم سے مشابہت پیدا کرے وہ انھیں میں سے ہے۔

شیخ الشیوخ شہاب الحق والدین سہروردی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ” عوارف المعارف" شریف میں فرماتے ہیں:
"واعلم ان الخرقة خرقتان خرقة الارادة وخرقة التبرك والاصل الذي قصده المشائخ للمريدين خرقة الارادة وخرقة التبرك تشبه بخرقة الارادة فخرقة الارادة للمريد الحقيقى وخرقة التبرك للمتشبه ومن تشبه بقوم فهو منهم."
[عوارف المعارف الباب الثاني عشرص ۷۹ مطبع الشد الحسيني القاهره ]

ثانيا ان غلامان خاص کے ساتھ ایک ملک میں منسلک ہونا ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
هم القوم لا يشقى بهم جليسهم
[مسلم شريف كتاب الذكر والدعاء باب فضل مجالس الذكرج ٢ ، ص ٣٤٤ مطبع مجلس بركات مباركهور / المستدرك على الصحيحين، كتاب الدعاء ج ۱، ص ٦٧٢ ، مطبع دار الكتب العلمية بيروت ]

یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بھی بد بخت نہیں رہتا
ثالثاً محبوبان خدا آیہ رحمت ہیں وہ اپنا نام لینے والے کو اپنا کر لیتے ہیں اور اس پر نظر رحمت رکھتے ہیں امام نور الدین علی قدس سره اسرہ بہجۃ الاسرار شریف میں فرماتے ہیں: حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی گئی کہ اگر کوئی شخص حضور کا نام لیوا ہو اور اس نے نہ حضور کے دست مبارک پر بیعت کی ہو نہ حضور کا خرقہ پہنا ہو کیا وہ حضور کے مریدوں میں شمار ہوگا ؟ (ارشاد فرمایا ) جو اپنے آپ کو میری طرف نسبت کرے اور اپنا نام میرے غلاموں کے دفتر میں شامل کرے اللہ اسے قبول فرمائے گا اور اگر وہ کسی نا پسندیدہ راہ پر ہو تو اسے توبہ کی توفیق دے گا اور وہ میرے مریدوں کے زمرے میں ہے اور بے شک میرے رب عز وجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میرے مریدوں اور ہم مذہبوں اور میرے چاہنے والوں کو جنت میں داخل فرمائے گا۔
[بهجة الاسرار شريف ذكر اصحابه وبشراهم ، ص ۱۰۱، مصطفی البابی مصر ]

(۲) بیعت ارادت کہ اپنے ارادہ و اختیار سے یکسر باہر ہو کر اپنے آپ کو شیخ مرشد ہادی برحق واصل بحق کے ہاتھ میں بالکل سپرد کر دے، اسے مطلقاً اپنا حاکم و مالک و متصرف جانے ، اس کے چلانے پر راہ سلوک چلے ، کوئی قدم بے اس کی مرضی کے نہ رکھے، اس کے لئے بعض احکام یا اپنی ذات میں خود اس کے کچھ کام اگر اس کے نزدیک صحیح نہ معلوم ہوں انھیں افعال خضر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مثل سمجھے، اپنی عقل کا قصور جانے ، اس کی کسی بات پر دل میں بھی اعتراض نہ لائے ، اپنی ہر مشکل اس پر پیش کرے غرض اس کے ہاتھ میں مردہ بدست زندہ ہو کر رہے، یہ بیعت سالکین ہے اور یہی مقصود مشائخ مرشدین ہے، یہی اللہ عز و جل تک پہنچاتی ہے یہی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے لی ہے جسے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
بـا يـعـنا رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره والأثرة علينا وان لا ننازع الامراهله
[حديث كنز العمال كتاب الايمان والاسلام ج ۱، ص ۱۷۱، حدیث نمبر ١٥١٣ ، الفصل السادس في البيعة مطبع دار الكتب العلمية بيروت، الصحيح البخاری ج ۲ ، كتاب الفتن باب قول النبي صلى الله عليه وسلم سترون بعدی امور اتنكرونها ص ١٠٤٥ مطبع مجلس برکات مبارکپور اعظم گڑھ ، واللفظ للاول ]

ہم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اس پر بیعت کی کہ ہر آسانی و دشواری، ہر خوشی و ناگواری میں حکم سنیں گے اور اطاعت کریں گے اور صاحب حکم کے کسی حکم میں چوں و چرا نہ کریں گے۔

شیخ ہادی کا حکم رسول کا حکم ہے اور رسول کا حکم اللہ کا حکم ہے اور اللہ کے حکم میں مجال دم زدن نہیں ۔ اللہ عز و جل فرماتا ہے:
﴿ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينا ﴾
[سورہ احزاب آیت - ۳۶]
کسی مسلمان مرد و عورت کو نہیں پہنچتا کہ جب اللہ ورسول کسی معاملے میں کچھ فرمادیں پھر انھیں اپنے کام کا کچھ اختیار رہے اور جو اللہ و رسول کی نافرمانی کرے وہ کھلا گمراہ ہوا۔

عوارف شریف میں ارشاد فرمایا:
"دخوله في حكم الشيخ دخوله في حكم الله ورسوله واحياء سنة المبايعة"
[عوارف المعارف الباب الثاني عشرص ۷۸ مطبع المشهد الحسيني قاهره ]

شیخ کے زیر حکم ہونا اللہ ورسول کے زیر حکم ہونا ہے اور اس بیعت کی سنت کو زندہ کرنا ہے۔

جب یہ اقسام معلوم ہو لئے تو اب حکم مسئلہ کی طرف چلئے:

مطلق فلاح کے لئے مرشد عام کی قطعاً ضرورت ہے وہ اس مرشد سے جدا ہو کر ہر گز نہیں مل سکتی اگرچه مرشد خاص رکھتا ہو بلکہ خود مر شد خاص بنتا ہو۔

اقول پھر اس سے جدائی دو طرح پر ہے۔

اول صرف عمل میں جیسے کہ کبیرہ کا مرتکب یا صغیرہ پر مصر ہے۔ اور اس سے بدتر ہے وہ جاہل کہ علما کی طرف رجوع ہی نہ لائے اور اس سے بدتر وہ کہ با وصف جہل ذی رائے بنے ، احکام علما میں اپنی رائے کو دخل دے یا حکم کے خلاف اپنے یہاں کے باطل رواج پر اڑے، بہر حال یہ لوگ فلاح پر نہیں اور بعض بعض سے زائد ہلاکت میں ہیں مگر صرف ترک عمل کے سبب نہ بے پیر ہوا نہ اس کا پیر شیطان جبکہ سچے دل سے اولیا و علمائے دین کا معتقد ہو کہ بیعت جس طرح بہ اعتبار پیر خاص دو قسم پر تھی یونہی باعتبار مرشد عام بھی اگر اس کے حکم پر چلتا ہے بیعت ارادت رکھتا ہے ورنہ بیعت برکت سے خالی نہیں کہ ایمان و اعتقاد تو ہے۔ تو گنہگار سنی اگر پیر جامع شرائط اربعہ کا مرید ہے فبہا ورنہ بوجہ حسن اعتقاد مرشد عام کے منتسبوں میں ہے اگر چہ نافرمانی کے باعث فلاح پر نہیں مگر انجام کار آخرت میں نجات ہے جبکہ ایمان پر خاتمہ ہوا گرچہ معاذ اللہ سبقت عذاب کے بعد ہو یہ عقیدہ اہل سنت ہے، ہر مسلمان کے لئے لازم اور کسی بیعت و مریدی پر موقوف نہیں اس کے لئے صرف نبی کو مرشد جاننا بس ہے۔

دوم منکر ہو کر جدائی مثلاً۔

(۱) وہ ابلیسی مسخرے کہ علمائے دین پر ہنستے اور ان کے احکام کو لغو سمجھتے ہیں انھیں میں ہیں، وہ جھوٹے مدعیان فقر جو کہتے ہیں کہ عالموں فقیروں کی سدا سے ہوتی آئی ہے۔

اقول اور انھیں میں ہیں وہ جھوٹے مدعیان توحید جو وسیلہ کو شرک بتاتے اور بزرگان دین کی بیعت و ارادت کو لغو سمجھتے ہیں اور جماعت اسلامی انھیں کا ایک روپ ہے اور اس کا یہ کہنا کہ بغیر طریقت کے نجات ہو جائے گی اس کا منشا وہی وسیلہ کا انکار ہے اور بزرگان دین سے وسیلہ کا انکار قرآن کا انکار ہے۔ قرآن نے فرمایا:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾
[سوره مائده آیت - ۳۵]
یعنی اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔

مولوی خرم علی بلہوری نے شاہ عبد العزیز صاحب کے دادا شاہ عبدالرحیم صاحب کا قول ” شفاء العلیل "میں نقل کیا کہ وسیلہ سے مراد بیعت مرشد ہے۔
[شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل دوسری فصل بیعت کی سنیت کا بیان ص ۲۳، مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور ]

اور امام الطائفہ میاں اسمعیل دہلوی نے خود سید احمد رائے بریلوی سے بیعت کی اور وہ مرید تھے شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی کے اب ان لوگوں سے پوچھو کہ امام الطائفہ پر اور ان کے خاندان پر کیا حکم لگاتے ہو جو حکم امام الطائفہ و خاندان امام الطائفہ پر تمہارے عقیدہ میں لگتا ہے تم پر بھی ضرور ہوگا۔ بالجملہ ثابت کہ اولیا کے طرق کا انکار اور ان کی دشمنی خدا اور سول کی دشمنی ہے والعیاذ باللہ تعالیٰ.

(۲) وہ دہریے ملحد فقیر و ولی بننے والے کہتے ہیں : شریعت راستہ ہے ہم تو پہنچ گئے ہیں ہمیں راستے سے کیا کام؟ ان خبیثوں کا رد ہمارے رسالہ ” مقال عرفا باعزاز شرع و علماء" میں ہے۔

(۳) وہ جاہل اجہل کہ بے پڑھے یا چند کتابیں پڑھ کر بزعم خود عالم بن کر ائمہ سے بے نیاز ہو بیٹھے جیسا قرآن وحدیث ابوحنیفہ وشافعی سمجھتے تھے ان کے زعم میں یہ بھی سمجھتے ہیں، بلکہ ان سے بھی بہتر کہ انھوں نے قرآن وحدیث کے خلاف حکم دیئے یہ ان کی غلطیاں نکال رہے ہیں یہ گمراہ بد دین غیر مقلدین ہوئے۔

اقول، مودودی، ان کے ہم خیال بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراہ ہے کہ تنقیحات میں کہتا ہے: قرآن وحدیث کی تعلیم سب پر مقدم مگر تفسیر وحدیث کے پرانے ذخیروں سے نہیں ، یہ صاف حدیث کا انکار ہے تو اس جماعت کے نزدیک تو بغیر تفسیر وحدیث کے بھی نجات ہو جائے گی تو وہ آپ ہی کہیں کہ بغیر طریقت کے نجات ہو جائے گی۔

(۴) اس سے بدتر وہابیت کی اصل علت کہ تقویت الایمان پر سر منڈا بیٹھے ، اس کے مقابل قرآن وحدیث پس پشت پھینک دیئے، اللہ و رسول جل وعلا وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک اس ناپاک کتاب کے طور پر معاذ اللہ مشرک ٹھہریں اور یہ اللہ ورسول کو پیٹھ دے کر اس کے مسائل پر ایمان لائیں۔

اقول جماعت اسلامی بھی اسی کتاب نام نہاد تقویۃ الایمان کی معتقد ہے دیکھو تجدید و احیائے دین و تفہیمات وغیرہ۔

(۵) ان میں بدتر دیوبندی کہ انھوں نے گنگوہی و نانوتوی و تھانوی اپنے اخبار ورہبان کے کفر کو اسلام بنانے کے لئے اللہ ورسول کو سخت سخت گالیاں قبول کیں اور ایسے کافر ہیں کہ علمائے عرب و عجم نے فرمایا:
من شك في كفزه وعذابه فقد كفر -
[حسام الحرمين على منحر الكفر والمين مع الترجمة، ص ۹۰، رضا اکیڈمی ممبئی (اشاعت (١٤٣٥هـ)]

جو ان کے عقائد کفریہ جان کر ان کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ خود کافر ہے۔ دیکھو حسام الحرمین شریف۔

اور مودودی انھیں مسلمان سمجھتے ہیں تو انھیں کی طرح کافر ہیں (۶) قادیانی (۷) نیچری (۸) چکڑالوی (۹) روافض (۱۰) خوارج (۱۱) نواصب (۱۲) معتزلہ وغیر ہم ۔

بالجمله نجات مرشد عام کہ کلام الله و کلام رسول و کلام ائمه و کلام علما ہے، کی بیعت پر موقوف ہے بیعت خاصہ پر نہیں، مگر بیکار وہ بھی نہیں بلکہ دنیا و آخرت میں مفید ہے، مگر اس کا ترک نافی فلاح نہیں اسی لئے اکابر ائمہ و علماء سے یہ بیعت خاصہ ثابت نہیں ، یا کی تو اخیر عمر میں بعد حصول مرتبہ امامت اور وہ بھی بیعت برکت جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے سید الدین قدس سرہ کے دست مبارک پر کی، ہاں جو اس کا ترک بوجہ انکار کرے اسے مطلقا باطل ولغو جانے جیسا کہ وہابیہ کی عادت ہے وہ ضرور گمراہ و بے فلاح ہے۔

یہاں سے حکم مسئلہ ظاہر اور طریقت سے مراد تصوف ہے جو تصفیہ باطن سے عبارت ہے تو اس معنی کر کے طریقت شریعت کی فرع ہے ، اس کا انکار شریعت کا انکار ہے اور عقل کی دشمنی ہے جو ریا و عجب وحسد وکینه و تكبر وحب مدح وحب جاہ و محبت دنیا طلب شہرت تعظیم امراء و تحقیر مساکین و اتباع شہرت و مداہنت و کفران نعمت و حرص و بخل وطول امل و سوئے ظن و اصرار باطل و عناد حق و مکر و غدر و خیانت و غفلت و قسوت و طمع و تملق وغیرہا بہت سے امراض قلبی ( کہ جس میں اکثر کی برائی عقول عوام میں مقرر ہے ) سے دل کے تصفیہ کی جدو جہد کو برا سمجھے گا اور ان کے ہوتے ہوئے ایمان پر سخت اندیشہ اور ظاہری تقوی بھی دشوار اور ان امور کو ہلکا جانے تو انکار ہے تو سرے سے ایمان ہی نہیں نجات کیسی ۔ [مختصر او ملتقطا ]
[فتاوی رضویه مترجم ، ج ۲۱ ، ص ۵۰۵ تا ۵۱۳، مطبع مرکز اهل سنت برکات رضا پور بندر گجرات فقیر ]

والله تعالى أعلم
کتبــــــه:

فقیر محمد اختر رضا خان از هری قادری غفر له

[فتاویٰ تاج الشریعہ ، ج: ۲، ص: ۳، مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی]

نوٹـ: فائل ڈاؤنلوڈ ہونے کے بعد بعض اوقات براہِ راست نہیں کھلتی ہے ۔ اگر ایسا ہو توبراہِ کرم اپنے موبائل یا کمپیوٹر کے "Downloads" فولڈر میں جا کر فائل کو کھولیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں