Fatwa No. # 34-39 Jild No # 01
مسئلہ نمبر ٣٤ تا ٣٩ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسائل ذیل میں: بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ‘‘خدا’’ اللہ کا ترجمہ نہیں اعلیٰ حضرت نے اللہ کا ترجمہ خدا کیوں لکھا
﴿كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ الآية﴾
اور کاٹتے ہیں اس چیز کو جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا۔
[سوورۂ بقرہ آیت۔۲۷]
﴿كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ﴾
بھلا تم کیونکر خدا کے منکر ہو گئے۔
[سوورۂ بقرہ آیت۔۲۸]
﴿حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً﴾
اب تک علانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں۔
[سوورۂ بقرہ آیت۔۵۵]
﴿ُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّهِ﴾
کھاؤ اور پیو خدا کا دیا۔
[سوورۂ بقرہ آیت۔۶۰]
﴿وَبَأؤُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ﴾
اور خدا کے غضب میں لوٹے۔
[سوره بقره آیت - ۶۱]
﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ﴾
خدا تمہیں حکم دیتا ہے۔
[سوورۂ بقرہ آیت۔۶۷]
﴿أَعُوذُ بِاللَّه﴾
خدا کی پناہ۔
[سوورۂ بقرہ آیت۔۶۸]
﴿هَذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ﴾
یہ خدا کے پاس سے ہے
[سوورۂ بقرہ آیت۔۷۹]
﴿فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ﴾
ادھر وجہ اللہ خدا کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہے۔
[سوره بقره آیت ۱۱۵]
قرآن معنیٰ الفاظ کا نام ہے اور لفظ حروف کا محتاج تو بعض حروف کو منزل من اللہ فرماتے اور قدیم جانتے ہیں حالانکہ اللہ عز وجل کا کلام نفسی ، صوت سے پاک ہے جس کو الفاظ کے لباس میں بندوں پر ظاہر فرمایا گیا تو قرآن کریم معنیٰ مفہوم کا نام ہوا اس کی حقیقت بتائیں اور اصلاح فرمائیں۔
۳۔ حروف حادث ہیں یا قدیم ۔ جو قدیم ہونگے تو واجب ہونگے ۔
۴۔جو قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی آواز کہے اس کا کیا حکم ہے اللہ عز وجل کا کلام نفسی ، صوت سے پاک اور وہ صوت کا قائل ہے اس قاتل کا شرعاً کیا حکم ہے؟
۵۔بعض لوگ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو قرآن کریم سے افضل بتاتے اور استدلال یہ فرماتے کہ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ میں تشریف فرما تھے وہ آیات قرآنی مکی کہلائیں جب مدینہ طیبہ میں تھے تو آیات قرآنی مدنی کہلائیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں واجب و قدیم اور کلام اللہ کی صفت ہے اور ممکن وحادث اور عبد اللہ ۔ آپ سے التماس ہی کہ مکمل تشریح کے ساتھ وضاحت فرمائیں صاف اور خوشخط لکھوا دیں تا کہ عامۂ اہل سنت بہرہ مند ہو سکیں نیز عربی فارسی وغیرہ عبارت کا ترجمہ بھی۔
۶- زید کو کسی نے مسجد کے لئے چندہ کی رقم دی زید جمع کرانے والا تھا کہ اس کی جیب سے وہ رقم گر گئی تو زید کے لئے کیا حکم ہے وہ گم شدہ رقم اپنے پاس سے ادا کریگا ؟ بینوا توجروا
المستفتی: عبدالوہاب صاحب مولا چوک لاڑ کا ز سندھ پاکستان
الجوابـ اللهم هداية الحق والصواب
خدا اور اللہ الفاظ مترادفہ ہیں اور دونوں اللہ تعالیٰ کے علم ذات ہیں جن کا اطلاق غیر باری تعالٰی پر جائز نہیں ، غیاث اللغات میں ہے:
‘‘الله در لغت بمعنی معبود برحق و در اصطلاح علم للذات الواجب الوجود المستجمع بجميع الصفات’’
[غیاث اللغات بر حاشیه منتخب اللغات و چراغ ہدایت ، فصل الف مقصوره مع لام ، ص ۴۸ مطبع رزاقی پریس کانپور]
اللہ لغت میں معبود برحق کے معنی میں ہے اور اصطلاح میں ذات واجب الوجود جامع جملہ صفات کا علم ہے۔
کفایہ میں ہے:
‘‘اذلا يطلق علىٰ غيره لا حقيقةً ولا مجازاً’’
[شرح فتح القدير مع الكفاية ج ۱، ص ۳ ، كتاب الصلوة باب الامامة مطبع دار الكتب العلمية بيروت]
اسم جلالت کا اطلاق اللہ کے سوا کسی پر نہیں ہوتا نہ حقیقۃًنہ مجاز اً۔
نیز غیاث اللغات میں ہے:
‘‘چوں لفظ خدا مطلق باشد بر غیر ذات باری تعالی اطلاق نه کنند’’
[غیاث اللغات بر حاشیه منتخب اللغات و چراغ ہدایت ،فصل خانے معجمہ مع دال مہملہ ، ص ۱۸۵ مطبع رزاقی پریس کانپور]
جب لفظ خدا مضاف نہیں ہوتا تو اس کا اطلاق ذات باری تعالیٰ کے سوا کسی پر نہیں کرتے اسی لئے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ:
‘‘من خدایم’’ کہنا کفر ہے فتاویٰ عالمگیری میں ہے ‘‘
ولو قال
من خدايم
على وجه المزاح یعنی
خود آیم
فقد كفر كذا في التتار خانيه’’
[فتاوی هندیه، ج ۲، ص ٢٧٤ ، كتاب السير باب احكام المرتدين مطبع دار الفکر بيروت ]
اگر دل لگی کے طور پر فارسی میں کہے ‘‘من خود آیم’’ تو وہ کافر ہو جائے گا۔
ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ عجم میں لفظ خداذات باری تعالیٰ کے لئے خاص ہے جس طرح لفظ اللہ عربیت میں علم ذات اقدس ہے۔ اسی لئے لفظ اللہ و خدا دونوں کا استعمال فارسی واردو میں ایک دوسرے کی جگہ پر شائع و ذائع ہے چنانچہ خدا بولتے ہیں اور اللہ مراد لیتے ہیں اور اللہ بولتے ہیں اور خدا جانتے مانتے سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی نے رسول اللہ کا ترجمہ رسول خدا جا بجا کیا ہے تو لا محالہ لفظ خدا اسم جلالت (اللہ ) کے مرادف ہوا اسی لئے علمائے اعلام نے بلانکیر لفظ خدا کا اطلاق ذات باری تعالیٰ پر جائز فرمایا اور اسے ذات اللہ کا علم مانا۔
شرح المقاصد للعلامة التفتازانی میں ہے:
‘‘قالوا اهل كل لغة يسمونه باسم مختص بلغتهم كقولهم خداى و تنكرى وشاع ذٰلك و ذاع من غيـر نکیرٍ كـان اجماعاً قلنا كفى بالاجماع دليلا على الاذن الشرعي وهذا ما يقال انه لا خلاف فيما يردفى الاسماء الواردة في الشرع’’
[شرح المقاصد للتفتازانی باب بسم الله الرحمٰن الرحيم، الفصل السابع في اسماء الله تعالىٰ ، المبحث الثانى، ج ۳، ص ٢٥٧ ، دار الكتب العلمية، بيروت]
ہر زبان والے اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہیں جو ان کی لغت میں ہے ان کے لئے مخصوص ہے جیسے عجمیوں کا قول اور تنکیروں اور یہ بلا نکیر شائع و ذائع ہے تو اجماع اذن شرعی پر دلیل کافی ہے اور یہ وہی بات ہے جو کہی جاتی ہیکہ علماء کا ان اسمائے واردہ کے مرادف ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اور جب لفظ خدا اسم جلالت کا مرادف ہے اور بالاتفاق ذات باری تعالیٰ کا علم ذات ہے تو اللہ کا ترجمہ خدا کرنا صحیح و درست ہے اور اعتراض ساقط ۔
۔ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام قدیم ہے جو اصوات معروفہ و حروف معہودہ سے منزہ ہے اس لئے کہ وہ اس کی صفت ذات ہے اور اس کی ہر صفت قدیم ہے اور اصوات معروفہ و حروف معلومہ حادث اور وہ قیام حوادث سے منزہ ہے۔
علامہ فضل رسول بدایونی علیہ الرحمہ کی کتاب مستطاب المعتقد المنتقد میں ہے:
‘‘و منه انه متكلم بكلام قديم لامتناع قيام الحوادث بذاته سبحنه قائم بذاته ليس بحرف ولا صوت لانه صفة له وهو متعال عنه الخ’’
[المعتقد المنتقد، باب الالهيات، ص ٣۳،٣٤ ، المجمع الاسلامی، مبارك مبارکپور]
ازاں جملہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کلام قدیم کا متکلم ہے اس لئے کہ اس کی ذات کے ساتھ حوادث کا قیام محال ہے وہ کلام اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور حرف اور آواز نہیں اس لئے کہ وہ اس کی صفت ہے اور وہ حرف و آواز سے منزہ ہے۔
اسی معنیٰ کر قرآن عظیم اللہ تعالیٰ کی صفت قائمہ بذاتہ تعالیٰ کا نام ہواجسے کلام نفسی سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ نظم و معنیٰ کا مجموعہ ہے۔
المعتقد میں ہے:
‘‘و هذا الكلام القديم القائم بذاته يقال له الكلام النفسي ولا يوصف بانه عربي او عبرى انما العبرى والعربى هو اللفظ الدال عليه’’
[المعتقد المنتقد، باب الالهيات، ص ٣٤، المجمع الاسلامی، مبارکپور ]
اور یہ کلام قدیم جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اسے کلام نفسی کہتے ہیں اور وہ نہ تو عربی سے موصوف ہے نہ عبرانی سے، عبرانی اور عربی تو لفظ ہے جو کلام نفسی پر دلالت کرے۔
اور چونکہ احکام شرعیہ کی دلیل لفظ ہے اسی لئے ائمہ اصول فقہ نے قرآن کی تعریف یوں کی کہ وہ مصاحف میں مکتوب ہے تو اتر کے ساتھ منقول ہے۔ اور انھوں نے قرآن کریم کو نظم و معنیٰ دونوں کا نام قرار دیا یعنی نظم کو اس حیثیت سے کہ معنی پر دال ہے قرآن کہا ہے۔
المعتقد میں ہے:
‘‘ولما كان دليل الاحكام الشرعية هو اللفظ عرف ائمة الاصول بالمكتوب في المصاحف المنقول بالتواتر وجعلوه اسماً للنظم والمعنى جميعاً أي النظم من حيث دلالته على المعنى’’
[المعتقد المنتقد، باب الالهيات، ص ۳۷، المجمع الاسلامی، مبارکپور]
یہاں سے ظاہر کہ قرآن کریم کا اطلاق کلام نفسی و کلام لفظی دونوں پر ہوتا ہے اور یہ کہ کلام نبی اللہ تعالیٰ کی صفت قدیمہ ہے جو حروف واصوات معروفہ سے پاک ہے اور کلام لفظی کہ حروف واصوات سے عبارت ہے حادث ہے اور یہی کلام لفظی منزل من اللہ ہے اور حروف واصوات معروفہ ضرور حادث ہیں جس کی نسبت باری تعالیٰ کی طرف بدعت ہے اور اس کا قائل بدعتی ، گمراہ ہے۔ ہاں جو ایسے حروف واصوات کا قول کرے جو اصوات و حروف حادثہ معروفہ کے مشابہ نہیں نہ اعراض غیر قارہ ہیں اور نہ مترتبۃ الاجزاء ہیں اور انھیں قدیم بتائے تو اس کے بطلان پر شرعاً کوئی دلیل نہیں۔
المعتقد میں ہے:
‘‘مبتدعة الحنابلة قالوا كلامه تعالى حروف واصوات تقوم بذاته تعالى وهو قديم الخ ’’
[المعتقد المنتقد، باب الالهيات، ص ۳۷ ، المجمع الاسلامی، مبارکپور]
یعنی حنابلہ کے مبتدعین نے کہا کہ اللہ تعالی کا کلام حروف واصوات ہیں جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں حالانکہ وہ قدیم ہے۔
اس کے تحت اعلی حضرت عظیم البرکت قدس سرہ نے المستند المعتمد میں فرمایا:
‘‘اقول : ای اصوات وحروف كالمعهود المعروف وبطلان هذا غنى عن البيان كما قال وهذا قول باطل بالضروة ا ھ اما القائل منهم بقدم حروف واصوات لا تشابه الحروف المحدثة او الاصوات الحادثة وليست من الاعراض السيالة الغير القارة في الوجود ولا مترتبة الاجزاء فلا دليل قطعيا من الشرع على بطلانه بل يشير اليه بعض كلام علمائنا وعليك بالمواقف والملل وما سمينا من قبل - اھ
[المستند المعتمد مع المعتقد المنتقد، باب الالهيات، ص ۳۷ ، المجمع الاسلامی، مبارکپور]
یعنی میں کہتا ہوں ( کہ علامہ فضل رسول قدس سرہ کی مراد ) اصوات و حروف مثل حروف و اصوات معروفہ ہیں اور اس دعوی کا بطلان محتاج بیان نہیں چنانچہ انھوں نے کہا کہ یہ قول بداہتہ باطل ہے۔ رہا وہ جوان حروف واصوات کے قدیم ہونے کا قائل ہو جو حروف واصوات حادثہ کے مشابہ نہ ہوں اور نہ ان اعراض سے ہوں جو ذی قرار نہیں اور نہ ان کے اجزاء مرتب ہوں تو اس کے بطلان پر شرعاً کوئی دلیل نہیں بلکہ ہمارے علماء کا بعض کلام اس کی طرف مشیر ہے۔ اور تم پر مواقف و ملل اور جن کتابوں کا ہم نے پہلے نام لیا مطالعہ ضروری ہے۔
پھر کلام نفسی کلام لفظی کی طرف تقسیم متأخرین کا مذہب ہے جسے انھوں نے رد معتزلہ اور کم فہموں کی تفہیم کے لئے اختیار فرمایا جس طرح متشابہات کی تاویل اختیار کی ۔ اور اصل مذہب جس پر ائمہ سلف ہیں وہ یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو واحد ہے اس میں تعدد نہیں نہ خدا سے جدا ہوانہ کبھی جدا ہو اور نہ کسی دل نہ زبان نہ کسی ورق اور کان میں حلول کئے ہوئے ہے۔ کہ وہ قدیم ہے اور ہم اور ہمارا حفظ اور تلاوت اور ہاتھ اور کتابت اور کان اور سماعت حادث ہیں اور قرآن قدیم قائم بذات باری تعالیٰ ہما رے دلوں پر مفہوم کی صورت میں اور زبانوں پر منطوق کی صورت میں اور ہمارے مصحف میں مکتوب کی شکل میں اور ہمارے کانوں میں مسموع کے رنگ میں تجلی فرما رہا ہے تو وہی مفہوم و منطوق و منقوش و مسموع ہے نہ کہ کوئی شئی دیگر جو اس پر دال ہو اور یہ بغیر اس کے کہ اللہ سے جدا ہو یا حوادث سے متصل ہو یا کسی شئی میں حلول کرے۔
با لجمله در حقیقت قرآن وہی کلام الہٰی ہے جو واحد ہے جس کی تجلیاں مختلف ہیں اور تجلی کا تعدد اس شئی متجلی کے تعدد کا مقتضی نہیں۔
د مبدم گر لباس گشت بدل
شخص صاحب لباس راچه خلل
هذا خلاصة ما افاده المجدد الاعظم سیدی احمد رضا جدى في المستند المعتمد
[المستند المعتمد مع المعتقد المنتقدص ٣۵،٣۶ ، مطبع المجمع الاسلامی مبارکپور اعظم گڑھ]
۳،۴۔ ان دونوں سوالوں کا جواب نمبر ۲ سے ظاہر ۔
۵-مطلقاً افضل بتانا غلط و باطل اور بہت سخت ہے کہ اس سے کلام الہی بمعنی صفت الہیہ قدیمہ قائمہ بالذات پر تفضیل لازم آتی ہے جو کفر ہے ہاں مصحف ( کہ قرطاس و مداد سے عبارت ہے ) پر تفضیل بیشک ثابت ہیکہ وہ حادث و مخلوق ہے اور مخلوق سے سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم افضل ہیں۔
اعلی حضرت علیہ الرحمہ جد الممتار حاشیہ ردالمحتار میں فرماتے ہیں:
قوله : والاحوط الوقف - اقول لا حاجة الى الوقف والمسئلة واضحة الحكم عندى بتوفيق الله تعالى۔
فان القرآن ان اريد به المصحف اعنى القرطاس والمداد فلا شك انه حادث وكل حادث مخلوق وكل مخلوق فالنبي صلى الله تعالى عليه وسلم افضل منه۔
وان ارید به کلام الله تعالى الذى هو صفته فلا شك ان صفاته تعالى افضل من جميع المخلوقات وكيف يساوى غيره ما ليس بغيره تعالى ذكره وبه يكون التوفيق بين القولين اھ
[جد الممتار على رد المحتار على الدر المختار كتاب الطهارة ابحاث الغسل ج ١ ، ص ٣٩٤ ، مطبع دار الفقيه للنشر والتوزيع أبوظهبي]
یعنی اس مسئلہ میں توقف کی حاجت نہیں اور مسئلہ کا حکم اللہ تعالی کی توفیق سے میرے نزدیک واضح ہے۔ اس لئے کہ قرآن سے اگر مصحف یعنی قرطاس و مداد مراد ہوں تو یہ یقیناً حادث ہیں اور ہر حادث مخلوق ہے اور ہر مخلوق سے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم افضل ہیں۔
اور اگر کلام اللہ مراد ہوں جو صفت الہی ہے تو بیشک خدا کی صفات تمام مخلوقات سے افضل ہیں اور غیر اللہ اس کے مساوی کیسے ہوگا جو غیر اللہ نہیں تعالی ذکرہ اور اس توجیہ سے دونوں قول میں تطبیق ہو جائیگی
۶۔لازم نہیں کہ زید امین ہے اور امین پر تاوان نہیں جبکہ اس نے حفظ امانت میں کوتاہی نہ کی ہو
فقیر محمد اختر رضا خان از هری قادری غفر له
[فتاویٰ تاج الشریعہ ، ج: 1، ص: 193، مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی]
نوٹـ: فائل ڈاؤنلوڈ ہونے کے بعد بعض اوقات براہِ راست نہیں کھلتی ہے ۔ اگر ایسا ہو توبراہِ کرم اپنے موبائل یا کمپیوٹر کے "Downloads" فولڈر میں جا کر فائل کو کھولیں۔