دربارهٔ وحدة الوجود

Fatwa No. # 27-33       Jild No # 01

مسئلہ نمبر ۲۷تا۳۳ مضمون ۔ مولانا عبد الرحمان لکھنوی اور تصوف’’ قدرے تبدیلی کے ساتھ پاکستان بھیجا تھا جو ماہنا مہ ضیاء حرم لاہور بابت ماہ اگست ۱۹۷۹ء میں بنام’’ حضرت علامہ عبد الرحمان لکھنوی ’’چھپا تھا ضیاء حرم کی ایک کاپی ارسال خدمت ہے حضرت رسالہ پر نظر ڈالیں اور ملاحظہ فرمائیں کہ یہ اہلسنت کے حق میں مفید ہے یا مضر ۔میرا یہ تطفل ملاحظہ فرمائیں۔

ا۔ التصوف شرك لانه صيانة القلب عن رؤية الغير ولا
(خواجه ابو بکر شبلی)

۲۔لاترى لغير دمك وجودا مع نو دم الحدود وحفظ الأوامر والنواهي
(سيدنا غوث الثقلين)

۳۔نفی وجود نزد ما اقرب طرق است
(سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی)

بخدا غیر خدا اور دو جہاں نیست کسے
صد و لعلست دہے دامن از انیست کسے

کسے کہ عاشق و معشوق خویشن ہمہ اوست
حیف خلوت و ساقی الحجن : اجن ہمہ اوست

مگو که کثت اشیاء نقیض وحدت است
تو در حقیقت اشیاء نظر فگن ہمہ اوست

(حضرت خواجہ اجمیری)

۵۔سبحان الذي خلق الاشياء وهو عينها
(حضرت ابن عربی)

حق تعالیٰ کثرت کی جہت سے خلق ہے اور وحدت کی جہت سے حق ہے اور ان سب کا عین ایک ہی ہے۔ ابن عربی ۔اللہ تعالیٰ سمع ، بصر ، ہاتھ پیر کا عین ہے اور جمیع حوامی کا عین ہے۔

۶۔ در الجمن فرق و نہاں خانۂ جمع
باللہ ہمہ اوست ۔ باللہ ہمہ اوست ۔
(جامی)

اس قسم کے لاکھوں اقوال توحید حقیقی پر ملتے ہیں ایک منطقی نے بھی اس حقیقت کو سمجھا ہے اور صوفیہ وجود یہ کے مسلک کو مجموعی طور پر اس طرح لکھا ہے، اذذاته لیست مغائرة للممكنات بالذات بل بالاعتبار

۷۔ (ملاحسن) شبلی نعمانی جو پیری مریدی نہیں کرتا تھا لکھتا ہے کہ عالم قدیم ہے لیکن وہ ذات باری سے علیحدہ نہیں بلکہ ذات باری ہی کے مظاہر کا نام عالم ہے حضرات صوفیہ ہی کا مذہب ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہ آتا کیونکہ تمام مشکلات کی بنیاد اس پر ہے کہ عالم اور اس کا خالق دو جدا گانہ چیزیں ہیں اور ایک دوسرے کی علت و معلول ہیں غرض فلسفی کی رو سے تو صوفیائے کرام کے مذہب کے بغیر چارہ نہیں البتہ یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شریعت اور نصوص قرآنی اس کے خلاف ہیں لیکن یہ شبہ بھی صحیح نہیں قرآن مجید میں بکثرت اس قسم کی آیتیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ظاہر و باطن اول و آخر جو کچھ ہے خدا ہی ہے۔

۱۰۰۰ھ سن ایک ہزار ہجری تک جمیع سلاسل کے اولیاے کرام وحدۃ الوجود پر متفق ہیں البتہ الف ثانی میں اس کی تاویل کی گئی جو زہر کی طرح ہم میں سرایت کر گئی ہے جو لوگ بیعت وارادت اور اولیاء سے دوستی کے دعووں سے بیگانہ ہیں وہ حق میں وحدت الوجود کو ثابت کر رہے ہیں مگر عاشقان اولیاے کرام ان کے مسلک خدارسی کو الحاد زندقہ سے تعبیر کرتے ہیں اعلیٰ حضرت کو نوع بنوع مضامین کا مرقع بتانا چاہیے نہ کہ عقیدت مندوں کی حوصلہ شکنی کر کے بددلی کے اسباب پیدا کرنا یہ مقام افسوس نہیں کہ خالص علمی تاریخی اور اسی مضمون کو ویک پاکستان کو چھاپ دیں کہیں مرکز اہل سنت کی فضا اس کے لئے تنگ ہو جائے اس سلسلے میں بہت سی باتیں ہیں جو عرض کی جاسکتی ہیں لیکن تنگیٔ وقت مانع ہے عرض گزار ہوں کہ اس مسلک تو حید پر تحقیق کی ضرورت ہے تا کہ ہم عقیدت مندوں کو صبح قیامت میسر آئے ورنہ یہ عجیب و غریب بات ہوگی کہ اولیاے کرام کی ولایت کا تو اعتراف کریں لیکن زینہ ولایت پر بم باری کریں اگر تو حید حقیقی با وحد ت الوجود زندقہ ہے تو اس کے قائلین ولی کیسے ہو گئے اور اگر اس کے قائلین ولی ہو گئے تو وحدۃ الوجود زندقہ کیسے ہو گا ممکن ہے کہ میری باتوں میں کوئی گرانی محسوس ہو مگر حقائق بیانی کو میں کیا کروں ان باتوں کو بس یہ خیال فرمائیں کہ ایک طالب علم چند سوالات لیکر حاضر ہوا ہے۔ آخر میں یہ عرض کر دوں
کو غیر و کجا غیرو کو نقش غیر، والله سو اللہ حافی الوجود
اخبار الاخیار شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی ۔ فقط ۔

المستفتی: طالب عنایت صفی احمد قادری


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الحمد لله وكفى وسلام على عباده الذين اصطفى لا سيما سيدنا المصطفى واله نجوم الاهتداء وصحبه مصابيح الدجى وعلماء امته سرج الآخرة والدنيا

الجوابـ (۱)عقیدہ ٔجماہیر اہل سنت یہ ہے کہ حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ شانہ واحد ہے نہ عدد سے خالق ہے نہ علت سے فعال ہے نہ جوارح سے قریب ہے نہ مسافت سے، حیات و کلام و سمع و بصر و اراده و قدرت و علم و غیر ہا تمام صفات کمال سے از لا وابدا موصوف اور تمام شیون شین عیب سے اولا و آخرا بری، ذات پاک اس کی نه ضد و شبه و مثل و کیف و شکل و جسم و جهت و مکان و امروز زمان سے منزہ جس طرح ذات کریم اس کی مناسبت ذوات سے مبرا، اسی طرح صفات کمالیہ اس کی مشابہت صفات سے معر ا تمام عزتیں اس کے حضور پست اور سب ہستیاں اس کے آگے نیست ۔
﴿كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ﴾
[سورہ قصص آیت – ۸۸]

وجود واحد، موجود واحد باقی سب اعتبارات ہیں ، ذرات اکو ان کو اس کی ذات سے ایک نسبت مجہولۃ الکیف ہے جس کے لحاظ سے من و تو کو موجود و کائن کہا جاتا ہے اور اس کے آفتاب وجود کا ایک پر تو ہے کہ کائنات کا ہر ذرہ نگاہ ظاہر میں جلوہ آرائیاں کر رہا ہے اگر اس نسبت و پر تو سے قطع نظر، نہ وہ واحد جو چند کی طرف تحلیل پائے نہ وہ واحد جو بہ تہمت حلول عینیت اوج وحدت سے حضیض اثنیت میں اتر آئے هو ولا موجود الاهو آية كريم سبحنه وتعالى عما يشركون [سورۂ نحل آیت ۔۱]

جس طرح شرک فی الالوہیتہ کو رد کرتی ہے یونہی اشتراک فی الوجود کی نفی فرماتی ہے۔ ملخصاً
[فتاوی رضویه مترجم ج ۲۹، ص ۳۴۴۰۳۴۳ مطبع برکات رضا پور بندر گجرات]

(۲)ان کلمات طیبات میں چند جواہر زواہر وحدۃ الوجود کے بھی آگئے جو خلاصۂ تحقیق وعطر دقیق ہیں حضرات صوفیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرار ہم کے کلمات کو جو سمجھنے کا اہل نہیں اسے اسی قدر پر قناعت لازم اور تفصیل کی ہوس حرام بد کام ضلالت انجام ہے اسی لئے علمائے کرام نے کتب صوفیہ کا مطالعہ حرام بتایا بلکہ خود صوفیہ کرام نے ممانعت فرمائی شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سره القوى رعاية الانصاف والا عتدال میں فرماتے ہیں:
و مختار شیخ جلال الدین سیوطی که از علماء متاخرین حدیث اسست در شان شیخ آنست کہ اعتقاد ولايته وتحريم النظر في كتبه
[رعاية الانصاف والاعتدال في اعتقاد الصوفية من ارباب الحال برهامش اخبار الاخیار از شیخ عبد الحق محدث دهلوی ص ٨٦، مطبع مجتبائی دهلی]

اسی میں ہے
‘‘وتحریم النظر در کتب ایشاں خود مذہب ایشاں است می گوید نحن قوم یحرم النظر في كتبنا الالمن الخ’’
[رعاية الانصاف والاعتدال في اعتقاد الصوفية من ارباب الحال برهامش اخبار الاخیار از شیخ عبدالحق محدث دهلوی ص ٨٦، مطبع مجتبائی دهلی]

یہی شیخ محقق اصول الطريقة لكشف الحقیقۃ میں فرماتے ہیں:
‘‘فائده دیگر است متعلق بمطالعه کتب این قوم و تحاشی از توسعه نظر در مصنفات ایشاں بے تمیز تفصیل والله يقول الحق ويهدى السبيل’’
[اصول الطريقة لكشف الحقيقة برهامش اخبار الاخيار از شيخ عبدالحق محدث دهلوی ص ۲۲۰۲۱، مطبع مجتبائی دهلی]

اسی میں ہے ‘‘شیخ ذکرہ الله بالخیر در باب فصوص و فتوحات و امثال آں می فرمود که از واضحات آں محفوظ باید شد و در مبهمات و موهمات آنها خوض نکرد و می فرمودند دریں جاز ہر ہا است شکر اندود کرده’’ الخ
[اصول الطريقة لكشف الحقيقة برهامش اخبار الاخیار از شیخ عبدالحق محدث دهلوی ص ۲۲ ،مطبع مجتبائی دهلی]

اسی میں سیدی احمد ابن زروق سے ناقل:
"حذر الناصحون من تلبيس ابليس ابن الجوزى وفتوحات الحاتمي بل كل كتبه او جلها و كابن سبعين وابن الفارض ومن يحذو حذوهم ومن مواضع من الاحياء للغز الى جلها في المهلكات منه والنضح والتسوية له والمصئون من غير اهله ومعراج السالكين والمنقذ و موضع من قوة القلوب لابي طالب المكى وكتاب السهروردي ونحوهم فلزم الحذر من موارد الغلط لا تجنب الجملة ومعادات العلم ولا يتم الابثلاث قريحة صادقة وفطرة سليمة واخذهابان وجهه وتسليم ما عداه و الاهلك الناظر فيه باعتراض على اهله واخذ الشي على غير وجهه فافهم "
[اصول الطريقة لكشف الحقيقة برهامش اخبار الاخیار از شیخ عبد الحق محدث دهلوی ص ۲۲ ،مطبع مجتبائی دهلی]

(۳)یہی گروہ صوفیہ اپنی کتابوں کے مطالعہ کے لئے اہلیت سے پہلے شرط کرتا ہے کہ آدمی کا عقیدہ مذہب ہلسنت پر مستحکم ہو یوں کہ اصلا کسی عقیدہ اہلسنت میں تردد نہو ورنہ ان کی کتابوں کا مطالعہ سخت آفت ایمان پر ہے۔
اسی اصول الطریقہ میں سیدی شیخ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہ سے ہے:
‘‘می فرمودند اول باید که عقد قلب بمذہب اہلسنت و جماعت محکم شده باشد و تردد و تذبذب در آنجا نمانده بعد ازاں اگر از کتب قوم محظوظ شوند و مستفید گردند بسلامت اقرب است والا آنکه هنوز اعتقاد شریعت درست نا کرده و عقد اسلام محکم ناشده هم از اول در مبهمات و موهمات و مشکلات ایں قوم خوض کنند محل آفت است’’
[اصول الطريقة لكشف الحقيقة برهامش اخبار الاخیار از شیخ عبدالحق محدث دهلوی ص ۲۳ ،مطبع مجتبائی دهلی]

اس ارشاد ہدایت و بنیاد کا صریح مفاد یہی ہے یہ مذہب اہلسنت ہی مدار کار واصل ارشاد ہے اور اسے چھوڑ کر صوفیہ کے ان کلمات کی طرف جدول نظر جو بہ ظاہر عقیدہ ٔاہلسنت کے خلاف ہوں دین ضلال اصل و فساد ہے۔

(۴)ارشاد مذکور کو حضرت شیخ ابن عربی قدس سرہ سے خوب ترشح کہ ارباب احوال کا جو قول ظاہر شرع کے خلاف ہوا گر چہ اس میں توقف و تسلیم مراد قائل و عدم انکار کا حکم ہے مگر اس کا ظاہر کہ خلاف شرع ہے لائق اتباع نہیں تصریح لیجئے ۔

حضرت شیخ ممدوح محقق دہلوی قدس سرہ القوی اسی رسالہ رعایۃ الانصاف میں فرماتے ہیں:
‘‘از واضح واضحات و اجلی بدیهیات است که طریق قویم و منہج مستقیم اعتقاد و عملا طريقا سلف صالحاست که موافق کتاب اللہ وسنت رسول الله است هر چه زموافق کتاب و سنت باشد باطل و از حلیه قبول عاطل است و بعضے مشایخ از ارباب احوال نیز ہر کہ بجہت طفح و سکر و غلبہ حال نہ بریں منوال مقال آورده محل اقتداء ومستحق اتباع نیست ’’ فالحق احق ان يتبع وماذا بعد الحق الالضلال – اھ
[رعاية الانصاف والاعتدال في اعتقاد الصوفية من ارباب الحال برهامش اخبار الاخیار از شیخ عبد الحق محدث دهلوی ص ۸۳، مطبع مجتبائی دهلی]

اسی میں قواعد الطریقہ سیدی احمد زروق سے ہے:
‘‘مبنى العلم على البحث والتحقيق ومبنى الحال على التسليم والتصديق فاذا تكلم العارف من حيث العلم نظر في قوله باصله من الكتاب والسنة وآثار السلف لان العلم معتبر باصله واذا تكلم من حیث الحال سلم له ذوقه اذ لا يوصله اليه الا بمثله فهو معتبر بوجد انه في العلم به مستند لامانة صاحبه ثم لايقتدى به لعدم عموم حكمه الا في حق مثله – اھ’’ فالحق احق ان يتبع وماذا بعد الحق الالضلال – اھ
[رعاية الانصاف والاعتدال في اعتقاد الصوفية من ارباب الحال، برهامش اخبار الاخیار: از شیخ عبد الحق محدث دهلوی ص ۸۵، مطبع مجتبائی دهلی]

نیز اسی میں انھیں ممدوح مذکور سے وہ منقول جو مذکورہ بالا سے سخت تر ہے چنانچہ فرماتے ہیں:
‘‘يعتبر الفرع باصله وقاعدته فان وافق قبل والا رد على مدعيه ان تأهل واوّل عليه ان قبل او اسلم له ان جلت مرتبته علما و ديانة ثم هو غير قادح في الاصل لان فساد الفاسد اليه يعود ولا يقدح في صلاح الصالح شيئا فغلاة المتصوفة كاهل الأهواء من الاصوليين وكالمطعون عليهم من المتفقهين يرد قولهم ويجتنب فعلهم ولا يترك المذهب الحق الثابت بنسبتهم له وظهور هم فيه – اھ’’
[رعاية الانصاف والاعتدال في اعتقاد الصوفية من ارباب الحال برهامش اخبار الاخیار از شیخ عبد الحق محدث دهلوی ص ٨٥ ، مطبع مجتبائی دهلی]

(۵)وحدۃ الوجود میں جو شحن مجمل سید نا اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز سے نقل ہوئے وہی قول فیصل ہے اور تفصیل اس کی سخت مبہم و موہوم و مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے، کہ صوفیہ خود اسے ہر کس و ناکس سے بیان نہیں کرتے اور اس کی اشاعت سے منع فرماتے ہیں اور عوام تو عوام علمائے ظاہر بلکہ ان صوفیہ کو بھی جنہوں نے راہ سلوک ہنوز طے نہ کی ہو اس کے فہم کا اہل نہیں سمجھتے۔

چنانچہ حاجی صوفی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی اپنے رسالہ وحدۃ الوجود میں فرماتے ہیں:
‘‘ایں مسئلہ وحدۃ الوجود چناں نیست بلکه در ینخانه تصدیق قلبی و تیقن کف لسان واجب ست، چرا که اسلام شرعی تعلق با خدا و با خلق میدارد و اسلام حقیقی محض تعلق بخدا دارد و آنجا تصدیق با قرار ضرور است اینجا فقط تصدیق باید ۔ سوائے آں در استفسار این مسئلہ فائدہ ہمیں کہ اسباب ثبوت ایں مسئله بسیار نازک و نہایت دقیق فہم عوام بلکہ فہم علمائے ظاہر کہ از اصطلاح عرفا عاری اند، قوت درک آن نمی دارد، چه علماء بلکہ صوفیائے کہ ہنوز سلوک خود تمام نه کرده باشند و از مقام نفس گزشتہ بمرتبه قلب نارسیده از یں مسئلہ ضررمی یابند از مکر نفس و تزلزل و لغزش پادر چاه اباحت و قعر ضلالت سرنگوں می افتند بلکه گروه ها افتاده اند كما شهدنا هم نعوذ بالله من ذالك جناب ہم نیکومی دانند ایں مسئلہ خاصیت عجیب می دارد بعض را هادی
[رساله وحدة الوجو داز مجموعه کلیات امدادیہ۔ امداداللہ مکی ص ۲۱۹ مطبع دارالاشاعت اردو بازار ایم اے جناح روڈ،کراچی پاکستان]

(۶)عینیت و اتحاد میان خالق و مخلوق کا قول صوفیہ کہ مہمات و مشکلات میں اسی غلو اور ان کی اصطلاح سے ناواقفی کا نتیجہ ہے اور اسے صوفیہ صافیہ کا مذہب سمجھنا جہالت ہے وہ صاف صاف اتحاد خالق و مخلوق کو الحاد وزندقہ بتارہے ہیں۔ یہی شاہ امداد اللہ مہاجر مکی رسالہ وحدۃ الوجود میں فرماتے ہیں:
‘‘بداں کہ در عبدورب عینیت حقیقی لغوی ہر کہ اعتقاد دارد غیریت لجمیع وجوه انکار کند ملحد وزندیق است از ین عقیده که در عابد و معبود و ساجد و مسجود هیچ گونه فرقےنمی ماند ایں غیر واقع است
[رساله وحدة الوجود از مجموعه کلیات امدادیہ ۔امداد اللہ مکی ص ۲۲۲، مطبع دار الاشاعت اردو بازار ایم اے جناح روڈ،کراچی پاکستان]

بلکہ وہ جو عینیت بولتے ہیں وہ اصطلاح ہے جو عینیت کے ساتھ مجتمع ہو جاتی اور اس کا مرجع و مآل وہی وحدة موجود مطلق ووحدة وجود حقیقی مطلق ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ اس کے اعتبارات و ظلال عکوس ہیں جن کے اوپر احکام حدوث وفنا و تغییر وز وال جاری ہوتے ہیں اور وہ موجود مطلق قدیم و باقی حدوث وفنا سے منزہ تغیر و تبدل سے معرا، لہذا ایک کا دوسرے پر اطلاق الحاد و زندقہ ہے۔ اسی رسالہ وحدۃ الوجود میں ہے
‘‘ در عبد ورب عینیت و غیریت هر دو ثابت و متحقق است آن بوجہے و این بوجہے اگر چه در بادی النظر اجتماع ضدین در شخص واحد محال می نماید’’
[رساله وحدة الوجود از مجموعه کلیات امدادیہ - امداد اللہ مکی، ص ۲۲۱ مطبع دار الاشاعت اردو بازار ایم اے جناح روڈ ،کراچی پاکستان]

اسی میں ہے کہ
‘‘ کسانیکه بمجر دخوض در مسئله وحدة الوجود وزندقه افتاده اند از نا دانستن مسئله عینیت و غیریت بوده ست ’’– اھ
[رساله وحدة الوجود از مجموعه کلیات امدادیہ امداد اللہ مکی ص ۲۲۱ مطبع دار الاشاعت اردو بازار ایم اے جناح روڈ، کراچی پاکستان]

الروض المجود مصنفہ علامہ فضل حق خیر آبادی میں ہے: ‘‘فاحكام التعينات بماهي تعينات لا تسرى الى الحقيقة المطلقة بما هي هي ولا احكامها بما هي هي تسرى الى التعينات ولا حكم تعين يسرى الى تعين اخر فلا يجوز ان يسند إلى الحقيقة الحقة المطلقة ما يسند إلى التعينات من الامكان والبطلان والمذلة والهوان والخسار والافتقار والخساسة والنجاسة والجوهرية والعرضية والكثافة و الجسمية واللذة والالم والحدوث والعدم والجزئية والتاليف والعبودية والتكليف والتقوى والثواب والطغوى والعقاب الى غير ذالك لان تلك الحقيقة الحقة واجبة فلا تبطل . كذا کمالا يجوز ان يسند الى التعين بما هو تعين ما يستند الى الحقيقة المطلقة بما هي من الاطلاق والوجوب والقدم والكمال والجمال والعزة والجلال والقهر والسلطان الى غير ذالك . و كما لا يصح أن يسند إلى تعين ما يستند الى تعين آخر ولكل من مراتب الاطلاق والتعين اسم يخص بها و احکام مرتبة عليها وآثار مستندة اليها. فاطلاق اسم مرتبة الاطلاق على مرتبة من مراتب التعين واطلاق اسم مرتبة من مراتب التعين على مرتبة الاطلاق او مرتبة اخرى من مراتب التعين زندقة والحاد “ملتقطا بالجملة –
[الروض المجود الفصل الاول ص ۱۸-۱۹ ، مطبع مفيد الاسلام حیدر آباد دکن]

وجود واحد مطلق ہے اور عالم میں جو کچھ ہے وہ اسی کے تعینات و اعتبارات و مظاہر ہیں اور وہ تمام اپنے ثبوت و بقا میں اسی موجود مطلق کے محتاج اور وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ ان الله غنى عن العالمين وحدة الوجود حق و صرف ہے اور مرتبہ وجود میں فرق اور امتیاز ایمان ہے اور خلط مراتب زندقہ و کفر و مبین خسران ہے۔

حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی علیہ الرحمہ فتاوی عزیزی میں فرماتے ہیں : ‘‘ وجود واحد در مراتب وجوب و امکان و قدیم و حادث و مجرد و جسمانی و مومن و کافرو نجس و طاهر ظاهر ست لیکن ہر مظہر حکم جدا دارد فرق در احکام مظاہر ضرور است مومن را حکم بنجات است و کافر را حکم بقتل داسر و على هذا القياس در جمیع صفات متضادة چنانچه گفته اند

ہر مرتبه از وجود حکمی دارد
گر فرق مراتب نہ کنی زندیقے

و ہر کہ فرق در احکام نه کند و محض وحدة وجود در املاحظه نماید خلاف شرع است و الحاد و زندقه است ملخصاً
[فتاویٰ عزیزی ج ۱ ص ۵۰۔۵۱، مکتوبات در باب توحید وجودی و شهودی مطبع مجتبائی دہلی]

لہذا حضرات صوفیہ سے جو کچھ موہم عینیت منقول ہو وہ اولاً عدم ثبوت پر اور ثانیاً بعد ثبوت غلبۂ حال وسکر پر محمول اور اس میں تاویل ضرور اور وہ مستحق اتباع نہیں جیسا کہ ماسبق سے ظاہر اور سب کے لئے یہی ایک جواب بس کہ ان کا کلام عنییت حقیقہ میں نہیں بلکہ عنییت ان کی ایک اصطلاح ہے جو اتحاد اور عنییت حقیقہ ہے بے علاقہ ہے خصوصاً ابن عربی کی عبارت منقولہ کے لئے والله تعالى شوا لهادى وهو تعالى اعلم

اور شبلی کا عالم کو قدیم بتا نا فلاسفہ کی قدیم گمراہی ہے اور باقی جملہ بھی اس کا فی الجملۃمخدوش ہے ابن عربی خود کہتے ہیں:

العبد عبد وان ترقى
والمولى مولى وان تنزل


[المواهب اللدنية على الشمائل المحمدية ص ٧ ، مطبع دار البصائر القاهرة]

اور ملاحسن کی عبارت سے بھی عینیت مبہمہ وجود ثابت نہیں ہوتی تو اس سے استناد کیسا اور آخر میں انھوں نے فرمایا وهذا الطور دور از طور العقل اسے یاد کر کے خود پہ اور دوسروں پر رحم کیجئے اور اس مسئلہ کی اشاعت سے باز آئے۔

(۷)مسئلہ وحدة الوجود جس طرح کہ کتب صوفیہ میں مرقوم ہے چودہ سو سال پرانا نہیں بلکہ صوفیہ کے طبقۂ سلف کے بعد پانچ سو سال گذرنے پر ظاہر ہوا۔ اسی فتاویٰ عزیزی میں ہے:
‘‘ولیکن بعد از مرور طبقنه سلف از صوفیه و گزشتن پان صد سال از ہجرت نبویه این حضرات دو فرقه شدند جمع کثیر اشارات را بر حقیقت حمل نمودند و قائل شدند با نكه وجود واحد ’’– الخ
[فتاویٰ عزیزی ج ۱ ص ۵۱ - ۵۰ مکتوبات در باب توحید وجودی و شهودی مطبع مجتبائی دہلی]

ما مر من قبل یہی وجہ ہے کہ آیات و احادیث اس کی تصریح نہیں کرتیں، جیسا کہ اشارات را بر حقیقت حمل نمودند، یہ بات عیاں ہے، اور اسی وجہ سے اصطلاحاتِ صوفیہ پر شاہ صاحب ممدوح نے بدعت کا حکم لگایا۔

چنانچہ فرماتے ہیں: ‘‘لفظ وجود مطلق در عرف صوفیہ اہلسنت مثل قیصری و فرغانی و مولانا جامی بسیار وارد است و در شرع وارد نه شده پس اطلاق این الفاظ بهر چند بدعت است او بدعت سیئه نخواهد بود’’
[شاہ صاحب کا قول]

اور اگر بالفرض یہ مسئلہ وحدۃ الوجود قدیم ہو تو ضرور تھا کہ تمام انبیاء اس کی تبلیغ فرماتے کہ توحید ورد شرک سب کا منصب ہے حالانکہ ایسا واقع ہوا۔

الروض المجود میں فرمایا:
‘‘لما كانت الانبياء عليهم السلام مبعوثين لتبليغ الاحكام الى كافة الانام وكانت هذه العقيدة اجل من ان تناله عامة الافهام كانت دعوتهم اليها توريطا لهم في الضلالة و تبعيدا اياهم عن الهدى والدلالة فلو دعت الانبياء اليها فات فائدة الرسالة’’ - الخ
[الروض المجود الفصل الثاني ص ۳۳-۳۲، مطبع مفيد الاسلام حیدر آباد دکن]

والله تعالى أعلم
کتبــــــه:

فقیر محمد اختر رضا خان از هری قادری غفر له

[فتاویٰ تاج الشریعہ ، ج: ۱ ، ص: ۱۸۳، مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی]

نوٹـ: فائل ڈاؤنلوڈ ہونے کے بعد بعض اوقات براہِ راست نہیں کھلتی ہے ۔ اگر ایسا ہو توبراہِ کرم اپنے موبائل یا کمپیوٹر کے "Downloads" فولڈر میں جا کر فائل کو کھولیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں