Fatwa No. # 44-49 Jild No # 01
مسئلہ نمبر ۴۴تا۴۹ قبلہ و کعبه جناب از هری صاحب دام الطفكم ! السلام عليكم ورحمة الله و بركاته
مزاج شریف بعد دست بوسی کے عرض خدمت یہ ہے کہ مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات دینے کی زحمت گوارہ فرمائیں ۔ ہم آپ کے ممنون و مشکور ہونگے
۱۔پیلی بھیت کے‘‘ اللہ ھو میاں ’’ کون تھے اور ان کے بارے میں حضور مفتی اعظم ہند دامت برکاتہم القدسیہ کا کیا فتوی ہے؟
۲۔لوگوں کا ‘‘اللہ ھو میاں’’ کہنا کیسا ہے؟
۳۔اپنے کو ‘‘اللہ ھو میاں’’ کہلوانا کیسا ہے؟
۴۔کیا حضرت سیدنا شاہ بدیع الدین قطب مدار رضی اللہ تعالی عنہ کا سلسلۂ مداریہ سوخت ہو گیا ہے اگر ہاں تو کس طرح؟
۵۔کیا مدار یہ سلسلہ کے سوخت ہونے پر یقین رکھنا ایمانیات و بنیادی عقائد میں شامل ہے؟
۶۔کسی سلسلہ کے سوخت ہونے کا اسلام میں کیا مقام ہے؟
المستفتی: از محمد عرفان القادری مصطفوی طلاق محل کا نپور متعلم ایم اے
الجوابـ پیلی بھیت کے قدیری سلسلہ کے ایک پیر کو ان کے مرید ‘‘اللہ ھو میاں’’ کہتے ہیں ان کے حالات مجھے معلوم نہیں اور کسی کو اللہ میاں کہنا حرام ہے کہ اللہ شرعا و عرفا خدائے پاک کے لئے خاص ہے کہ اللہ اللہ تعالی کا علم ذات ہے اور وہ بھی ایسا جس میں اشتراک لفظی کا کہیں پتہ نہیں معنی کہ معبود برحق ہے وہ تو ہے ہی ، لا شریک لہ بھی ہے بلکہ قرآن خود ناطق کہ اللہ صرف اللہ معبود برحق کا نام ہے اور اس کا ہم نام بے نشان ہے قال تعالى: ﴿هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيا﴾ [سوره مریم آیت – ۶۵]
اور جب اس لفظ کا خاص بہ ذات باری ہونا نص صریح قرآن سے ثابت ہے، اس کے سواکسی کے لئے یہ لفظ مستعمل نہ ہونا اس نص قرآنی سے ظاہر و بین تو اس لفظ کا ذات خدا کے لئے مخصوص ہونا ضروریات دین میں ایسا امر اجلیٰ ہوا جو عالم تو عالم کسی جاہل سے جاہل پر بھی مخفی نہیں بلکہ مسلمانوں پر کچھ موقوف نہیں ہر کا فر بے دین بھی خوب سمجھتا ہے کہ یہ اسم جلیل الشان خاص اللہ تعالی کا ہے کسی بندہ پر نہیں بولا جاتا اور جب ضروریات دین کی تصدیق ایمان اور کسی ضروری دینی کا انکار کفر بلکہ اس سے جہل بھی منافی ایمان کہ ایمان کا مدار علم پر ہے اسی لئے ہمارے علمائے اعلام فرماتے ہیں کہ اگر ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو آخری نبی نہ جانے تو مسلمان نہیں۔
تمۂ الاشباہ میں ہے:
‘‘اذا لم يعرف ان محمدا صلى الله تعالى عليه وسلم آخر الانبياء فليس بمسلم’’
[ الاشباه والنظائر على مذهب ابي حنيفة مع الحموى، ج ۲، ص۹۱ ، كتاب السير باب الردة مطبع زکریا بکڈپو سهارنپور]
تو کسی بندہ کو اللہ میاں کہنا اس خصوصیت کے انکار یا اس سے جہل کا پہلو رکھتا ہے اور یہ دونوں امر ے منافی ایمان۔ لاجرم فقہائے کرام نے غیر خدا کو رحمان کہنے والے کو کافر کہا کہ رحمان خاص خدا کا نام ہے شرح فقہ اکبر میں ہے:
‘‘من قال لمخلوق يا قدوس او القيوم او الرحمن او قال اسما من اسماء الخالق كفر’’
[شرح فقه اكبر ، ص ٣١٦ ، باب فصل في الكفر صريحا و كناية مطبع دار الايمان سهارنپور]
کشاف للزمخشری
میں ہے:
‘‘واما قول بني حنيفة في مسيلمة : رحمان اليمامة ، وقول شاعرهم فيه وانت غيث الورى لا زلت رحمانا، فباب من تعنتهم في كفرهم’’
[الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل ، سورة فاتحة الكتاب ، ج ، ۱ ، ص ،۷ ، مطبع دار الكتب العلمية بيروت]
حاشیہ سید شریف میں اس کی تائید و توجیہ یوں فرمائی:
‘‘حيث بالغوا فيه حتى خرجوا عن طريقة اللغة ايضا ’’
[حاشیه سید شریف]
رد المحتار میں ہے:
‘‘الرحمن لفظ عربي ۔وذهب الاعلم الى انه علم كالجلالة لاختصاصه به تعالى وعدم اطلاقه على غيره تعالى معرفا ومنكرا واما قوله في مسيلمة وانت غيث الورى لا زلت رحمانا ، فمن تعنته وغلوه في الكفر واختاره في المغنى’’ ملخصا
[رد المحتار، مقدمه ج ۱، ص ۷۷،۷۶ ، دار الكتب العلمية، بيروت]
پھر جب بندہ کو رحمٰن کہنا بوجہ خصوصیت به ذات خدا کفر ٹھہرا تو اللہ کہنا بدرجہ اولی کفر ہوگا کہ اللہ علم ذات اللہ ہے اور اس کی خصوصیت اظہر وا شہر ہے اسی لئے اسی شرح فقہ اکبر میں فرمایا:
‘‘ثم قال لواحد من الجبابرة يا الهٰ او يا الهٰى كفر ، اقول وانما قيد بكونه من الجبابرة لانه يكفر مع انه من ارباب الاكراه فغيره بالاولىٰ’’
[منح الروض الازهر شرح الفقه الأكبر، ص ٣١٥،٣١٦ ، فصل في الكفر صريحا و كناية ، مطبع دار الایمان سهارنپور]
لکہ اس قول کے کفری ہونے کی ایک وجہ اور ظاہر تر یہ ہے کہ کسی انسان کو اللہ کہنا اس کے لئے ادعاء الوہیت کی صورت ظاہرہ واضحہ رکھنا ہے اور یہ وہ بات ہے جس کے کفر ہونے پر خود قرآن حاکم و ناطق ہے قال تعالى:
﴿ََوَمَن يَقُلُ مِنْهُمْ إِنِّى إِلَةٌ مِّن دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ﴾
اور ان میں جو کہے کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں تو اسے ہم جہنم کی جزار دینگے ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ستمگاروں کو۔
[سوره انبیاء : -۲۹]
الغرض لفظ اللہ خاصۂ ذات الہٰیہ اور اس کا اطلاق غیرالہ پر حرام بلکہ کفر اور قائل پر تو به لازم اور احتیاطا تجدید ایمان بھی ضرور اور شادی شدہ ہو تو تجدید نکاح بھی ناگزیر اور یہ حکم اس کا ہے جو براہ بادانی کسی کو اللہ کہہ دے اور جو اس اطلاق کو جائز جان کر کہے وہ قطعا کا فر بے دین منکر ضروریات شرع مبین ۔ در مختار میں ہے:
’’ اذا كان في المسئلة وجوه توجب الكفر و واحد يمنعه فعلى المفتى الميل لما يمنعه ثم لو نيته ذلك فمسلم و الا لم ينفعه حمل المفتى على خلافه ‘‘
[الدر المختار، ج ۶ ، ص ٣٦٨ ، باب المرتد، دار الكتب العلميه، بيروت]
اسی میں ہے:
’’ ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح واولاده اولاد زنا، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح‘‘
[الدر المختار، ج ۶، ص ۳۹۰، ۳۹۱ ، باب المرتد، دار الكتب العلميه، بيروت]
اب چند عبارات کتب مفیده ، خصوص لفظ الہ مزید ذکر کریں۔ کفایہ میں ہے:
‘‘لان الله اسم للموجود الحى الجامع لصفات الالوهية فيكون ذكره ذكر صفات كلها معنى ولانه اخص الاسماء للموجود اذ لا يطلق على غيره لا حقيقة و لا مجازا’’
[شرح فتح القدير مع الكفاية ج ۱، ص ۳، مطبع دار الكتب العلمية بيروت]
کشاف للزمخشری میں ہے:
‘‘واما الله بحذف الهمزة فمختص بالمعبود بالحق لم يطلق على غيره’’
[الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل ، سورة فاتحة الكتاب ، ج ، ١ ، ص ، ٦ ، مطبع دار الكتب العلمية بيروت]
حاشیہ میرسید شریف میں ہے:
‘‘فاما الله فلم يستعمل الا في المعبود بحق’’
[حاشیه میرسید شریف سورہ فاتحہ ج ۱]
مرقاۃ علامہ امام علی قاری میں ہے:
‘‘لم يسم به احد من الخلق بخلاف سائر الاسماء’’
[مرقاة شرح مشكاة، ج ۱، ص ٤٧ ، دار الكتب العلمية، بيروت]
بیضاوی میں ہے:
‘‘والله اصله اله، فحذفت الهمزة وعوض عنها الالف واللام ولذالك قيل يا الله بالقطع الا انه مختص بالمعبود بالحق والا له فى الاصل يقع على كل معبودثم غلب على المعبود بحق’’
[تفسير البيضاوى ، سورة الفاتحه ، ج ، ۱ ، ص ، ۳۱ ، دار الفکر بیروت]
یہی فتوی ہے سیدی سر کار مفتی اعظم ہند کا ۔
۳،۲۔کا جواب، جواب نمبر ا/ سے ظاہر۔
۵،۴۔سیدی بدیع الدین مدار قدس سرہ نے خود اپنا سلسلہ درہم برہم و منقطع فرمایا ہے اس کی تفصیلی حکایت سبع سنابل میں موجود ہے مگر یہ امر ضروریات دین سے نہیں لہذا اس کے سبب مداریہ سے الجھنانہ چاہئے ۔
۶-سلسلہ کا اتصال صحت بیعت کے لئے شرط ہے، انقطاع سلسلہ سے بیعت نا درست ہوگی۔
والله تعالى أعلمکتبــــــه:
فقیر محمد اختر رضا خان از هری قادری غفر له
[فتاویٰ تاج الشریعہ ، ج: ۱ ، ص: ۲۰۳ ، مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی]
نوٹـ: فائل ڈاؤنلوڈ ہونے کے بعد بعض اوقات براہِ راست نہیں کھلتی ہے ۔ اگر ایسا ہو توبراہِ کرم اپنے موبائل یا کمپیوٹر کے "Downloads" فولڈر میں جا کر فائل کو کھولیں۔