Fatwa No. # 13,14 Jild No # 01
مسئلہ نمبر ۱۳تا۱۴ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ: خداوند قدوس کی شان میں یہ الفاظ بولے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو بولنے والے پر اور سننے والے پر تو بہ لازم ہے یا نہیں؟
‘‘قربان ،فدا،نچھاور، عاشق معشوق، حاضر ناظر،لا ایالی ، صاحب ، میاں، لفظ شکایت ، اور ہوس تھی دید کی معراج کا بہانہ تھا، اور یہ شوق ہے، اے خدا میں بھی اور میرے ماں باپ بھی تیری لونڈی اور غلام ہیں۔’’
از روئے شرع کی جواب عنایت فرمائیں۔
عاشق الرحمٰن اور معشوق اللہ، عاشق الہٰی نام رکھنا درست ہے یا نہیں ؟ واضح فرمائیں نیز وجہ ناجائز و حرام بھی بتا ئیں ،عین کرم ہوگا۔
المستفتی: محمد انور علی رضوی محله و خیره بریلی شریف یوپی
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجوابـ معاذ اللہ رب العٰلمین جلت عظمتہ وعزت عزتہ کی شان رفیع میں قربان فدا نچھاور اور جن الفاظ سے متبادر و عرف جاری ہیں بلکہ محض دلالت لفظ سے محبوب پر مرمٹ جائے فنا ہو جانے کا اطلاق ہو جناب باری تعالی میں حرام حرام اشد حرام بلکہ اپنے ان معانی ظاہرہ متبادرہ کی بنا پر کفر میں صریح اور اگر معاذ اللہ سامعین نے یہی معنی مراد لیا جو اس سے متبادر ہیں تو کفر متعین اور قائل وسامع دونوں پر تو بہ تجدید ایمان و تجدید نکاح بیوی والوں پر بہر کیف لازم ہے۔
اصول الدین عند الامام ابی حنیفہ میں ہے:‘‘من وصف الله تعالىٰ بمعنى ٰمن معاني البشر فقد كفر – اھ‘‘
اور عاشق و معشوق میں حرج نہیں جبکہ وہ معنی مراد نہ لیں جو جانب بشر میں مراد ہوتے ہیں اور حاضر ناظر کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے لئے نا جائز ہے جبکہ حضور سے حضور مکانی اور نظر سے آنکھ سے دیکھنا مراد نہ لیں ور نہ یہ بھی کفر ہے اور بعض فقہائے کرام نے اسی لئے اس کو کفر بتایا ، اگر چہ مختار یہی ہے کہ کفر نہیں حضور بمعنی علم اور نظر بمعنی مطلق رویت شائع ہے۔ در مختار میں ہے ‘‘یا حاضر و یا ناظر ليس یكفر’’
ردالمختارمیں ہے ‘‘فان الحضور بمعنى العلم شائع (ما يكون من نجوى ثلاثة الا هو رابعهم) (المجادلة) والنظر بمعنى الرؤية (الم يعلم بان الله يرى) (العلق) فالمعنى يا عالم من يرى۔ بزازية’’
لا ابالی کا اطلاق سوء ادب و کفر ہے اور صاحب کا اطلاق نہ چاہئے یونہی میاں کا اطلاق بھی منع ہے اور اللہ تعالی سے شکایت کرنا حرام ہے اور ہوس و بہانہ کا اطلاق اللہ تعالی کے لئے کفر ہے جس سے تو بہ و تجدید ایمان و تجدید نکاح لازم ہے اور اللہ تعالی کے لونڈی وغلام کہنے میں حرج نہیں جبکہ بمعنی مملوک کہے اور بندہ اور کنیز کہنا بہتر ہے۔
(۲) درست ہے
فقیر محمد اختر رضا خان از هری قادری غفر له
[فتاویٰ تاج الشریعہ ، ج: ۱ ، ص: ۱۷۰ ، مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی]
نوٹـ: فائل ڈاؤنلوڈ ہونے کے بعد بعض اوقات براہِ راست نہیں کھلتی ہے ۔ اگر ایسا ہو توبراہِ کرم اپنے موبائل یا کمپیوٹر کے "Downloads" فولڈر میں جا کر فائل کو کھولیں۔