Fatwa No. # 2-4 Jild No # 01
مسئلہ نمبر ٢ تا ٤ عرض اینکہ ذیل میں چند سوالات درج ہیں امید کہ جواب با صواب مرحمت فرما کر ممنون و مشکور فرمائیں گے۔
(1)زید کعبہ کو مقبرہ آدم تصور کرتا ہے اور مندرجہ ذیل دلائل پیش کرتا ہے۔
(الف) سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم وقت ہجرت قرب کعبہ یہ کہتے ہوئے رخصت ہورہے ہیں کہ اے کعبہ تیرے فرزند مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ اس عبارت کو حفیظ جالندھری نے شاہنامہ اسلام میں یوں لکھا ہے۔
تیرے فرزنداب مجھ کو یہاں رہنے نہیں دیتے
جو تیری پاکیزگی کو مادری کہنے نہیں دیتے
خدائی عارضی ہے پھر بھی دل کو بیقراری ہے
کہ تو اور تیری خدمت مجھ کو دنیا بھر سے پیاری ہے
(ب) امام اہل سنت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حدائق بخشش حصہ اول میں یوں تحریر کیا ہے
غور سے سن تو رضا کعبے سے آتی ہے صدا
میری آنکھوں سے مرے پیارے کا روضہ دیکھو
اس شعر میں پیارے کا لفظ الفاظ رحمانی کے پردے میں حفیظ جالندھری صاحب کی تحریر کو تقویت دے رہی ہے۔ا
(ج) اعلیٰ حضرت ہی دوسری جگہ یوں رقمطراز ہیں۔
کعبہ دلہن ہے تربت اطہر نئی دلہن
یہ رشک آفتاب وہ عزت قمر کی ہے
جب دلہن روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے تو دلہن بھی روضہ ہی ہے۔
(د)نثر میں احکام شریعت حصہ اول میں اعلیٰ حضرت یوں تحریر فرماتے ہیں:- حطیم مبارک روضہ اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام ہے پھر کچھ آگے چل کر دوسرے صفحہ پر لکھتے ہیں اور غور کرو تو پوشش کعبہ معظمہ میں بھی ایک بڑی حکمت یہی ہے جن کی حکومت عظمت اولیاء سے خالی ہے اس حقیقت سے نابلد ہیں۔
(ہ)اعلیٰ حضرت نے حطیم مبارک کو روضہ اسماعیل بتلایا لیکن احادیث کریمہ میں یہ بات تفصیل سے ذکر ہے کہ حطیم مبارک بھی کعبہ معظمہ ہی ہے اور غور کرو تو پوشش کعبہ معظمہ میں ایک بڑی حکمت یہی ہے۔ روضئہ آدم علیہ السلام کی جانب واضح اشارہ ہے۔
(۱)اب وضاحت طلب امر یہ ہے کہ زید کے مندرجہ بالا دلائل کہاں تک درست ہیں۔ اور حفیظ جالندھری نے جو لفظ فرزند لکھا ہے یہ کسی کتاب سے اخذ کیا گیا ہے اور امام اہل سنت نے جو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پیارے کے لفظ سے خطاب کیا ہے یہ کس کتاب سے ماخوذ ہے۔
(۲)ساتھ ہی ساتھ حضور والا سے مودبانہ گذارش ہے کہ ذرا اس معمے کو بھی از روئے شرع تحریری نوبت بہم پہنچائیں کہ خدا لا مکاں ہے کا کیا مطلب ہے۔ اور کعبہ خدا کا گھر ہے کیا مطلب اور ان الله خلق آدم علی صورتہ کی تشریح بھی فرمادیں تو عین نوازش ہوگی۔
(۳)زید ابو طالب کو مومن مانتا ہے تو کیا ان کے ایمان کے بارے میں کوئی ثبوت ہے۔ براہ کرم اثبات و نفی دونوں میں ثبوت قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر فرمائیں۔
المستفتی: محمد عثمان غنی قادری اچک پھول پوسٹ بڑسری جا گیر ضلع بلیا، یوپی
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجوابـ یہ سیدنا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کی اختراعی بات نہیں بلکہ جملہ محد ثین کرام کا اجماعی قول ہے پھر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے روضئہ اسماعیل علی نبینا وعلیہ السلام کا اطلاق حطیم شریف پر نہیں کیا ہے بلکہ علمائے کرام سے یہ نقل فرمایا ہے کہ حطیم کے قریب اور ایک قول پر حجر اسود اور زمزم کے بیچ میں ، مرقداسماعیل علیہ السلام اور ستر انبیاء علیہم السلام کی قبور ہیں تو یہ اعلیٰ حضرت پر افترا ہوا کہ انہوں نے حطیم کو روضتہ اسماعیل فرمایا ہے اعلیٰ حضرت نے احکام شریعت خواہ فتاویٰ رضویہ میں ایسا نہ لکھا۔ اور حطیم کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے اور اس میں مرقد اسماعیل علی نبینا وعلیہ السلام بھی ہے اور ان دونوں باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے نہ اس میں مرقد اسماعیل علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام ہونے سے کعبہ کا انکار لازم آتا ہے۔
اور پوشش کعبہ سے استدلال زید کی اختراعی بات ہے۔ اور اشعار مذکورہ سے بھی اس کا مدعی حاصل نہیں ہوتا۔ اور فرزند سے مکہ معظمہ کے باشندے مراد ہیں جنہیں فرزند مکہ سے تعبیر کیا ہے۔
(۱)اللہ تعالی زمان و مکان سے منزہ ہے وہ کسی مکان میں نہیں بلکہ وہ مکان و زمان سے پہلے بھی تھا اور زمان و مکان کی فنا کے بعد بھی رہےگا۔
قال تعالى :
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ وَيَبْقَى وَجُهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ﴾
[سوره رحمٰن آیت - ۲۶،۲۷]
عام کتب عقائد میں ہے
’’لا يجرى عليه زمان ولا يحويه مكان‘‘
[نظم الدرر في تناسب الآيات والسور سورة النساء مطبع دار الكتب العلمية بيروت]
تو خدا کا گھر اس معنی پر نہیں کہ خدا معاذ اللہ اس گھر میں رہتا ہے بلکہ تعظیم کے لئے خدا کا گھر کہتے ہیں اور ایسی نظیر ہمارے نظیر ہمارے محاورہ میں بھی ہے۔ اکثر بولتے ہیں یہ میرا گھر ہے اگر چہ آدمی وہاں پر نہیں رہتا بلکہ مثلا کرایہ دار وہاں رہتا ہے تو اس مثال میں اضافت اختصاص و ملک کے لئے ہے اس طرح خدا کا گھر میں اضافت تعظیم کے لئے ہے۔
اور حدیث
’’ ان الله تعالى خلق آدم على صورته ‘‘
[مشكونة المصابيح، ص۳۰۶ ]
میں صورت خدا مراد نہیں ہے کہ وہ صورت سے پاک ہے بلکہ ضمیر آدم کی طرف راجع ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم کو ان کی خاص صورت پر پیدا فرمایا۔
اہل سنت و جماعت کے نزدیک ابو طالب کا ایمان لانا ثابت نہیں بلکہ قوم کی طعنہ زنی کے خوف سے اسلام کی حقانیت کا اعتراف کرنے کے باوجود کفر پر قائم رہنا ثابت ہے چنانچہ ان اشعار سے جو خود ابو طالب کے ہیں ظاہر ہے۔
ولقد علمت بان دین محمدمن خير اديان البرية دينا لولا الملامة او حذار مسبة لوجدتني سمحابذاك مبينا
یعنی میں نے بے شک جانا کہ محمد کا دین سب دینوں سے بہتر ہے۔ اگر ملامت یا قوم کی گالی کا ڈر نہ ہوتا تو میں اسے بخوشی قبول کر لیتا۔
[تفسير الخازن ج ۱ سوره بقره، ص ٢٦ ]
زید سے ثبوت مانگنا چاہئے
کتبــــــه:
فقیر محمد اختر رضا خان از هری قادری غفر له
[فتاویٰ تاج الشریعہ ، ج: ۱ ، ص: ۱۶۱ ، مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی]
نوٹـ: فائل ڈاؤنلوڈ ہونے کے بعد بعض اوقات براہِ راست نہیں کھلتی ہے ۔ اگر ایسا ہو توبراہِ کرم اپنے موبائل یا کمپیوٹر کے "Downloads" فولڈر میں جا کر فائل کو کھولیں۔