Fatwa No. # 24-26 Jild No # 01
مسئلہ نمبر ٢٤ تا ٢٦
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ھذا کے بارے میں کہ
(۱)ایک قصبہ کے اندر ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں علاوہ علمائے کرام کے مفتی ثناء اللہ صاحب بنارسی و مفتی انیس عالم سیوانی اور مدرسہ عزیزیہ اشرفیہ مہاراج گنج کے مولوی عبدالعزیز صاحب جلسہ میں تشریف فرما تھے تو دوران تقریر میں مہاراج گنج کے مولوی عبدالعزیز صاحب نے اس گستاخانہ جملے کو استعمال کیا کہ محمد نہ ہوتے تو اللہ نہ ہوتا ) اور جب اللہ کو گدگدی محسوس ہوئی تو محمد کو پیدا کیا جب یہ ناروا الفاظ مولوی موصوف نے استعمال کیا تو مفتیان کرام جو وہاں موجود تھے انھوں نے مولوی موصوف کی تقریر کو بند کرا کر از سر نو تو به و استغفار کرا کر کلمہ پڑھایا لیکن جب مولوی موصوف مہاراج گنج آئے تو لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوا تو انھوں نے انکار کر دیا کہ میں نے ایسے الفاظ پر تو بہ نہیں کیا ہے۔ یہ غلط ہے۔ لیکن مفتیان کرام سے جب اس بات کی چھان بین کی گئی تو انھوں نے فرمایا کہ یہ واقعہ صحیح ہے لیکن مولوی موصوف تو بہ اور کلمہ کو ماننے پر تیار نہیں ہیں اس پر شرعا کیا حکم لگایا جا سکتا ہے۔ بینوا توجروا۔
(۲)ہمارے قصبہ مہاراج گنج کی شاہی مسجد میں ربیع الثانی کا سالانہ جلسہ ہوا کرتا ہے اس مسجد میں مولوی عبدالعزیز صاحب کی تقریر ہو رہی تھی تو مولوی موصوف نے دوران تقریر میں یہ کہا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کسی نرغے میں پڑ گئے تھے۔ اور کافروں نے گھیر لیا تھا۔ تو اللہ تعالی نے اپنے ہاتھوں سے کنکریاں پھینک کر مارا، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ انھوں نے کہا کہ منگا ؤ فتوی کتنا منگاؤ گے میں پھر خدا کا ہاتھ ثابت کرتا ہوں حکم سے مطلع کیا جائے۔
مہاراج گنج ہی کے قریب متصل ایک گاؤں ہے وہاں بھی دوران تقریر میں مولوی عبدالعزیز صاحب نے کہا: کہ اللہ تعالی کا فرمان:
﴿فَاذْكُرُونِي أَذْكُرُكُمْ وَاشْكُرْوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ﴾
[سوره بقره -۱۵۲]
اس بارے میں اللہ تعالی کو یہ نہیں کہنا چاہئے تھا بلکہ اذکر کم فاذکرونی “ کہنا چاہئے تھا سو غلطی کیا ۔ ان سب باتوں کو لے کر مسلمانان مہاراج گنج میں سخت اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ دو پارٹی ہوگئی ہے یہ مولوی موصوف عالم ہونے کا بھی دعوی کرتے ہیں حالانکہ عالم کی سند نہیں ہے، صرف مولوی تک ہیں اور عالم کا دعوی کر کے لوگوں میں فتنہ فساد پیدا کرتے ہیں لہذا ان تینوں مسئلوں میں مفتیان کرام کا شرعا کیا حکم ہے بینوا توجروا۔ کیا ان کی بیوی ان کی زوجیت میں رہ سکتی ہے بلا نکاح ؟ ، ایسے مولوی کو میلا د جلسہ وغیرہ میں دعوت دی جا سکتی ہے کہ نہیں ؟ ، ایسے مولوی صاحب سے اسلامی تعلقات قائم کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ ، برائے کرم كتب معتبرہ سے حوالہ دیتے ہوئے جواب دینے کی زحمت گوارہ فرمائیں۔
المستفتی: عبد الصمد خان متولی نئی مسجد مہاراج گنج سیوان
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجوابـ
مولوی مذکور نے اگر فی الواقع وہ کلمہ ملعونہ کہا جو سوال میں مذکور ہوا کہ اگر محمد نہ ہوتے تو اللہ نہ ہوتا تو اس پر تو بہ وتجدید ایمان و تجدید نکاح اگر بیوی رکھتا ہے لازم ہے۔ اس کے اس مقال کا صریح مفاد یہ ہے کہ معاذ اللہ اللہ تعالیٰ حادث ہے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کے حدوث کا سبب ہیں اور یہ صریح کفر، آیات و احادیث و اجماع امت کا انکار ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾
[ سوره حدید آیت ۳]
وہی اول ہے کہ اس سے پہلے کوئی نہیں وہی آخر ہے کہ سب کے فنا کے بعد وہی دائم و باقی وہی اپنی آثار قدرت سے ظاہر وہی اپنی کنہ ذات کے اعتبار سے مخلوق کی نظروں سے باطن اور وہی ہر شئی کا جاننے والا ہے۔
حدیث میں ہے:
"كان الله ولم يكن معه شئ غيره
[كنز العمال كتاب العظمة من قسم الاقوال ج ۱۰، ص ١٦٧ ، حدیث نمبر ٢٩٨٣٦ ، مطبع دار الكتب العلمية بيروت]
اللہ تعالی تھا اور اس کے ساتھ کچھ نہ تھا اس کے علاوہ۔
یونہی اس کا دوسراکلمہ ملعونہ کہ ” جب اللہ تعالی کو - الخ" بیہودہ ہذیان وکفر صریح ہے، بد یہی ہے کہ اللہ تعالی کے صفات حوادث و تغیرات سے پاک ہیں اور گد گدی اور احساس میں تغییرات حادثہ ہیں جنگی اضافت اللہ تعالی کی طرف کفر و سوء ادب ہے وہی تغیرات حوادث اور حوادث کو پیدا فرمانے والا ہے بغیر اس کے کہ اس پر تغیر طاری ہو۔
علامہ شہاب الدین احمد بن حجر ہیتمی مکی نے کفریات میں شمار فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کے لئے ایسی صفت مانے جو اجماعا اس سے منفی ہے یا ایسی صفت کی نفی کرے جو اس کے لئے ثابت ہے۔
او نـفـی مـاهـو ثابت لله تعالى بالاجماع المعلوم من الدين بالضرورة كا نكار اصل نحو علمه او قدرته او عونه يعلم الجزئى او اثبات ماهو منفى عنه كذالك كاللون كذا في الزواجر، ملتقطا۔
[الزواجر عن اقتراف الكبائر ، باب الكبيرة الأولىٰ الشرك الأكبر للعلامة شهاب الدين]
امام حجۃ الاسلام محمد غزالی نے احیاء علوم الدین میں فرمایا:
ومثال الخطأ فيه : هذا البيت بعينه لو سمعه في نفسه وهو مخاطب به ربه عز وجل، فيضيف التلون الى الله تعالى، فيكفر ۔
[احياء علوم الدين ، ج ٤ ، ص ٤٧٨ ، كتاب السماع والوجد الباب الثاني في آثار السماع وآدابه المقام الأول في الفهم، مطبع دار المنهاج للنشر والتوزيع المملكة العربية السعودية جدة]
اسی میں ہے
: بل ينبغي ان يعلم انه سبخٰنه و تعالى يلون ولا يتلون، ويغير ولا يتغير، بخلاف عباده، الخ ۔
[احياء علوم الدين ، ج ٤ ، ص ٤٧٨ ، كتاب السماع والوجد الباب الثاني في آثار السماع وآدابه المقام الأول في الفهم، مطبع دار المنهاج للنشر والتوزيع المملكة العربية السعودية جدة]
قرآن عظیم اور حدیث میں ید (ہاتھ ) کی اللہ تعالی کی طرف اضافت کی گئی ہے اور یہ متشابہات میں سے ہے یعنی جس کی قطعی مراد اللہ اور اس کے رسول کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ اور محکم وہ ہے جو ارشاد ہوا
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ﴾
کہ اللہ کے مثل کوئی بھی نہیں
[سوره شوری آیت-11]
اور متشابہات میں مذہب سلف یہ کہ اس کے ظاہر سے اللہ کو منزہ جانتے ہیں اور جو اس کی مراد ہے اللہ کی طرف اس کا علم مفوض کرتے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مذہب خلف یہ ہے کہ وہ تاویل صحیح شرعی کو جائز رکھتے ہیں بنا بریں مفسرین کرام نے ید سے قدرت کو مراد لیا اور فقہ اکبر میں ید اللہ کے لئے بین معنی ہے کہ اللہ کی صفت ہے نہ کہ حقیقت میں ہمارے ہاتھ جیسا ہاتھ مانا بالجملہ مسئلہ ایسا نہیں کہ عوام میں بیان کیا جائے حدیث میں ہے:
"أمرنا أن نكلم الناس على قدر عقولھم
[كنز العمال ، ج ۱۰، ص ۱۰۵ ، حدیث نمبر ۲۹۲۶۸ ، کتاب العلم باب آداب العالم والمتعلم مطبع دار الكتب العلمية بيروت]
لوگوں سے ان کی سمجھ کے لائق بات کرو۔ امام مذکور پر اللہ کے لئے مطلقا ہاتھ ثابت کرنے کی وجہ سے تو بہ لازم ہے۔
معاذ الله العظيم
الله تعالی غلطی اور بھول سے پاک ہے
قال تعالى :
﴿لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَايَنسَى ﴾
[ سوره طٰهٰ آیت -۵۲]
کتبــــــه:
فقیر محمد اختر رضا خان از هری قادری غفر له
[فتاویٰ تاج الشریعہ ، ج: ۱ ، ص: ۱۷۸ ، مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی]
نوٹـ: فائل ڈاؤنلوڈ ہونے کے بعد بعض اوقات براہِ راست نہیں کھلتی ہے ۔ اگر ایسا ہو توبراہِ کرم اپنے موبائل یا کمپیوٹر کے "Downloads" فولڈر میں جا کر فائل کو کھولیں۔